مہر طفیل کا عزم

Mahr Tufail Lohanch

Mahr Tufail Lohanch

تحریر: ایم آر ملک
مہرطفیل کا جنم جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ گائوں میں ہوا اس نے بلوغت میں قدم رکھا تو چاروں طرف اُسے عسرت ،تنگدستی ،افلاس کے ہیولے نظر آئے بچوں کی تعلیم اور علم سے معذوری ،بے علاج تڑپتی زندہ لاشوں ،بیماری سے سسکتے ہوئے علاج کیلئے بے کراں بزرگ ،دوائی کے فقدان سے مرتے ہوئے مفلوج بچوں نے اُسے بے کل کردیا اس بے کلی، روح اور احساس کی تپش نے اُسے گائوں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ان کی خاطر کچھ کرنے کا عزم ایک مضبوط چٹان بن کر اُس کے سامنے آکھڑا ہوا ،یہ بے چینی اُسے اُن غیر ملکی ڈونر اداروں کی دہلیز تک لے گئی جو غریب ممالک کے پسماندہ طبقات کی خوشحالی کیلئے فنڈز کی ترسیل کرتے ہیں غربت کی خاطر سروے کرنے والے ان اداروں کے سامنے مہر طفیل نے اپنے لوگوں کا مقدمہ انتہائی جاندار انداز میں رکھا۔

اُس کے ذہن سے یہ باتیں نہ نکل سکیں کہ کس طرح طرح محنت کش کسان میری دھرتی پر کولہو کا بیل بنا ہوا ہے مگر اُسے اُس کی اس محنت شاقہ کا پھل اُسے نہیں مل پاتا 100روپے میں تیار ہونے والی کھاد کی بوری اِن غریب کسانوں کو چھ سو روپے میں فروخت کی جاتی ہے جس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کا زمیندار اور کسان مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں اس طرح پستا ہے کہ زرعی ادویات ،ڈیزل ،تیل ،اور بجلی اُس کی قوت خرید اور استطاعت چھین لیتی ہے اوروہ بے دلی سے زراعت سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور ہے اپنے لوگوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے یہ باتیںکورے کاغذ پہ لکھے انمٹ لفظوں کی طرح اُسے ازبر تھیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے والے میرے خطے کے لوگوں کے سامنے پروردہ ریاست کی بھاری دیواریں کیسے رکاوٹ بن جاتی ہیں؟ ٹی وی سکرین پر جو حکمران افراد اور شخصیات کے روپ میں نظر آتے ہیں وہ الیکشن کے دنوں میں میرے خطے کے لوگوں کو مجسمے اور جھمگٹے کی صورت میں تو دیکھتے ہیں لیکن کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

وہ لوگ مہر طفیل کے ذہن پر مُہرکی طرح ثبت ہوگئے جن کے پاس دکھوں ،زخموں اور بربادیوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں مہر طفیل اپنے لوگوں کا مقدمہ لڑنے میں کامیاب رہا وہ چاہتا تھا کہ میرے خطے کے لوگ اُن حکمرانوں کے مرہون منت نہ رہیں جو ریاستی اقتدار کی عیاشی ،ٹھنڈی آرامگاہوں میںگزارتے ہیں اور میرے خطہ کے لوگوں کے دکھوں کو سن کر اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتے ،اپنی لوٹ مار کی روش میں کوئی رخنہ اندازی جنہیں پسند نہیں،جو جنوبی پنجاب کے عوام کے دکھ ،تکلیف ،درد اور پریشانی کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں عوامی نمائندوں کے بارے میں مہر طفیل کی رائے سے میں انکارنہ کر سکا کہ سیاست ،نظریات اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نام کی کوئی چیز اِن میں نظر نہیں آتی سیاست میں جھوٹ ،فریب ،دھوکہ دہی ،منافقت ،جعل سازی کردار اور شخصیت کا بنیادی وطیرہ اور اساس ہے۔

Dictatorship

Dictatorship

مہر طفیل کی اس بات میں ردنہ کر سکا کہ ہمارے حکمران ہمیشہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ وہ اپنی چالاکیوں سے لوگوں کو فریب دیتے رہیں گے مگر تاریخ اس کی نفی کرتی ہے ایوبی آمریت نے کیسے اپنے انجام کی طرف قدم بڑھائے، ضیاء کے عبرت ناک انجام سے بیشتر بھی پیش رو حکمرانوں کے ایسے ہی بلندو بانگ دعوے تھے اور آج کی جمہوری آمریت بھی اِن دنوں اِسی رعونت ،احساس برتری ،ذہنی پستگی ،اور خود فریبی کا شکار ہے مہر طفیل کی سوئی اپنے لوگوں کے طرز زندگی پر اٹکی ہوئی ہے وہ اس تپتی ہوئی سر زمین پر اُن لوگوں کی بات کرتا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ ترقی کی اصلیت کیا ہے ؟ جنہیں علم ہے کہ بڑے بڑے پراجیکٹوں سے مستفید کون ہو رہا ہے ؟ مہر طفیل کو میں اُن لوگوں کی جنگ لڑتے دیکھ رہا ہوں جنہیں گھروں کے سپنے دکھائے تو جاتے ہیں مگر وہ ہمیشہ بے گھر رہتے ہیں مہر طفیل اکثر کہتا ہے کہ میں اُس خطے کا باسی ہوں جس کے لوگوں کی اکثریت کو بزرگوں کی بیماری اور بچوں کی غذا کیلئے جانے کتنی بار مرنا پڑتا ہے ،جینے کیلئے کن کن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے ،جہاں محنت کشوں کے ساتھ بہت دھوکے ہوئے کہ جن کو یہ محنت کش اپنا مسیحا سمجھتے رہے اُنہی نے اُن کو تاراج کیا لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ پھر اُن سے اُمیدیں باندھنے پر مجبور رہتے ہیں۔

مہر طفیل مجھے اُس وقت ایک دانشور لگا جب اُس نے کہا کہ اِن اُمیدوں میں خلش نہیں مگر آرزوئوں کی کمی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی شکستیں عوام کو لمبے عرصے تک بد گمان کر دیتی ہے ،باشعور عناصر وسیع عوام پر اپنا اثر کھو دیتے ہیں اُن کی عوامی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے تعصبات اور توہمات جو عوام کے شعور میں پوری طرح بھسم نہیں ہوتے وہ دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں مہر طفیل نے اِک سرد آہ بھری اور دوبارہ گویا ہوئے کہ محنت کشوں کی اس کیفیت پر دانش ور مفکر اور لیڈر صرف سر ہلاتے ہیں مگر ایک وقت ایسا آتا ہے جب استحصال زدہ عوام کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اور وقت بہت بڑا منصف ہے عوام تبدیلی میں سماجی تعمیر نو کے کسی منصوبے کے تحت دا خل نہیں ہوتے بلکہ اس تیز دھار احساس کے ساتھ تبدیلی میں جاتے ہیں کہ پرانی حکمرانی کی مزید برداشت دم توڑ رہی ہوتی ہے اور جب یہ احساس و جذبات کا لاوا پھٹتا ہے تو بر سر اقتدار طبقہ کو عوام کے عذابوں سے تحفظ دینے والی ریاستی دیواریں احساسات و جذبات کی تپش سے پگھل جاتی ہیں۔

M.R Malik

M.R Malik

تحریر: ایم آر ملک