ترکی میں 28 منتخب میئرز کی برطرفی کے بعد ہنگامہ آرائی

Turkey Protest

Turkey Protest

ترکی (جیوڈیسک) ترکی کے جنوب مشرقی علاق میں کُرد اکثریتی قصبوں کے 28 منتخب میئرز کو ان کے عہدوں سے برطرف کیے جانے کے بعد ہنگاموں کا آغاز ہوگیا ہے۔

خیال رہے کہ ترکی میں جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد لگائی جانے والی ایمرجنسی کے نتیجے میں حکومت نے بہت سے فوجی افسران سمیت مختلف اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا تھا۔

برطرف ہونے والے میئرز کی جگہ حکومت نے اپنے با اعتماد میئرز کو تعینات کیا ہے۔ نجی خبر رساں ادارے دوگان کے مطابق پولیس نے سورک میں سٹی ہال کے باہر موجود 200 کے قریب مظاہرین کو آنسو گیس اور پانی کی توپوں سے منتشر کرنے کی کوشش کی۔

دوگان کے مطابق ہاکاری صوبے میں جھڑپوں کے بعد نائب میئر سمیت چار افراد کو برطرف کیا گیا ترک میڈیا کے مطابق متاثرہ علاقوں میں ان واقعات کے نتیجے میں بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی بند کر دی گئی۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو کا کہنا ہے کہ برطرف ہونے والے 28 میں سے 24 میئرز کو کردستان ورکر پارٹی کے ساتھ تعلقات کے شبہے میں عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔

دیگر میئرز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا فتح اللہ گولن کے ساتھ تعلق ہے۔
خیال رہے کہ فتح اللہ گولن امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ترک مبلغ ہیں۔

انھوں نے ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزامات سے انکار کیا ہے تاہم ترک حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پیچھے گولن کا ہاتھ ہی ہے۔

وزیرِ انصاف بکر بوزداگ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ ’میئرز اور ٹاؤن کونسلرز جوانتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں کو قانون کے مطابق انپی ڈیوٹی ضرور ادا کرنی چاہیے۔‘

کرد نواز ڈیموکریٹک پارٹی ایچ ڈی پی جس سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر میئرز متاثر ہوئے ہیں نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔