ترکی : بعد از فوجی بغاوت کریک ڈاؤن، 50 ہزار سرکاری ملازمین معطل یا گرفتار

Turkey Military Coup

Turkey Military Coup

ترکی (جیوڈیسک) ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام فوجی سازش میں ملوث اعلیٰ سرکاری عہدے داروں اور ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور حکومت نے فوج، پولیس اور عدلیہ کے بعد اس کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے جامعات، اسکولوں، انٹیلی جنس ایجنسی اور سرکاری مذہبی اداروں میں بھی تطہیر کا عمل شروع کر دیا ہے۔

صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت نے سرکاری اداروں کو امریکا میں مقیم مسلم دانشور فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اورناکام فوجی بغاوت کے بعد قریباً پچاس ہزار فوجیوں ،پولیس اہلکاروں،ججوں ،سرکاری ملازمین اور اساتذہ کو معطل کیا جاچکا ہے یا انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ترک وزیراعظم بن علی یلدریم نے کہا ہے کہ ”یہ متوازی دہشت گرد تنظیم اب کسی بھی ملک کے لیے کوئی موثر درد سر نہیں رہے گی”۔انھوں نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”ہم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے”۔ان کا اشارہ فتح اللہ گولن کی تحریک کی جانب تھا جس کے بارے میں ترک حکومت ایک عرصے سے یہ کہتی چلی آ رہی ہے کہ وہ ریاست کے اندر ایک ریاست ہے جس کو گولن کے پیروکار چلا رہے ہیں۔

صدر رجب طیب ایردوآن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت امریکا سے فتح اللہ گولن کو بے دخل کرنے کے لیے باضابطہ طور پر درخواست تیار کررہی ہے۔ترکی نے ان پر گذشتہ جمعہ کو ناکام فوجی بغاوت کی سازش کے تانے بانے بننے کا الزام عاید کیا ہے جس کے دوران حکومت کے وفاداروں اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں میں دو سو بتیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی ریاست پنسلوینیا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن نے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ان کا اس میں کسی طرح کا کوئی کردار نہیں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ صدر ایردوآن اس ناکام بغاوت کو ان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
ترک حکام نے منگل کے روز فتح اللہ گولن کے حامی میڈیا ذرائع کو بند کردیا ہے اور ان سے اور فوجی بغاوت سے تعلق کے الزام میں وزارت تعلیم کے پندرہ ہزار ملازمین،نظامت مذہبی امور کے 492 ملازمین ،وزیراعظم کے دفتر کے 257 ملازمین اور 100 انٹیلی جنس افسروں کو فارغ خطی دے دی ہے۔

حکومت نے تطہیر کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے تمام جامعات کے تدریسی شعبہ جات کے سربراہوں کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔اس حکم کے بعد ترکی کی کرنسی لیرا کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں گر گئی ہے۔

ترکی کے مغربی اتحادیوں نے فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن حکومت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے ردعمل میں فوج اور سرکاری محکموں میں بڑے پیمانے پر کی جانے اکھاڑ پچھاڑ اور برطرفیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ترکی پر زوردیا ہے کہ وہ جمہوری قدروں کی پاسداری کرے۔

درایں اثناء ترک وزیراعظم بن علی یلدریم نے امریکا پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دُہرے معیارات اپنانے کا الزام عاید کیا ہے۔انھوں نے یہ الزام امریکا کی جانب سے اس بیان کے ردعمل میں عاید کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فتح اللہ گولن کے خلاف واضح ثبوت فراہم ہونے کی صورت میں ہی ان کی بے دخلی پر غور کیا جائے گا۔یلدریم کا کہنا ہے کہ ”وزارت انصاف نے امریکی حکام کو گولن کے بارے میں دستاویزات بھیج دی ہیں۔

ترکی کے وزیر انصاف بکیر بوزداغ نے انقرہ میں پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”ہمارے پاس گولن کے بارے میں اس سے بھی زیادہ شواہد موجود ہیں جتنے کہ آپ پوچھ سکتے ہیں۔حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فوجی بغاوت ان (گولن) کی منشاء سے اور احکامات پر منظم کی گئی تھی۔