ترکی میں پولیس کی عمارت کے قریب بم دھماکا، نو ہلاک

Turkey Blast

Turkey Blast

ترکی (جیوڈیسک) ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں جمعہ کو پولیس کی ایک عمارت کے قریب ہوئے بم دھماکے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہو گئے۔

اطلاعات کے مطابق جمعہ کو ہونے والا دھماکے میں بارودی مواد سے بھرے ایک ٹرک کے ذریعے شام کی سرحد کے قریب واقع ترکی کے قصبے سیزرے میں پولیس کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا گیا۔

دھماکے سے تین منزلوں پر مشتمل پولیس اسٹیشن کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے بھی قبول نہیں کی ہے۔

حال ہی میں ترکی میں پولیس اور فوج کے اہلکاروں اور تنصیبات پر ایسے حملے ہوتے رہے ہیں اور حکام اُن حملوں کا ذمہ دار کردستان ورکرز پارٹی ‘پی کے کے’ کو قرار دیتے ہیں۔

مقامی ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہونے والے مناظر میں دھماکے میں استعمال ہونے والے ٹرک سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آتا ہے۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ترکی کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ دھماکے کے مقام کی جانب فوری طور پر ایمبولینس گاڑیوں اور دو ہیلی کاپٹروں کو روانہ کر دیا گیا تھا۔

ترکی میں کرد عسکریت پسند گروپ ’’پی کے کے‘‘ کے ساتھ دو سال تک جاری رہنے والے عمل امن کے معطل ہونے کے بعد ترکی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان واقعات میں اب تک سکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

ترکی میں تشدد کے کئی واقعات کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش پر بھی عائد کی گئی ہے جس میں گزشتہ ہفتے ترکی کے جنوب مشرق میں کرد برادری کی شادی کے تقریب میں ہونے والے دھماکا بھی شامل ہے۔ اس خودکش بم حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

رواں ہفتے ہی ترکی نے شام میں حزب مخالف کے باغیوں کے تعاون سے اپنی سرحد کے قریب شام کے علاقے جرابلس میں کارروائی کی اور ترک حکام کے مطابق اس علاقے سے داعش کو مار بھگا دیا گیا ہے۔

سلطان مراد باغی گروپ کے کمانڈر احمد عثمان نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ “جرابلس کو مکمل طور پر آزاد کروا لیا گیا ہے۔”

انقرہ کا کہنا تھا کہ اس سریع حملے کا مقصد سرحدی علاقے سے داعش کے شدت پسندوں اور شامی کردوں سے پاک کرنا تھا۔ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران یہ ترکی کی طرف سے پہلی قابل ذکر مداخلت تھی۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کہتے ہیں کہ یہ کارروائی ترکی میں ہونے والے سلسلہ وار حملوں کے ردعمل میں کی گئی جن میں گزشتہ ہفتے سرحد کے قریب کردوں کی ایک شادی کی تقریب پر ہونے والا حملہ بھی شامل تھا۔