ترکی کی بغاوت کے معاملے سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں: اوباما

Barack Obama

Barack Obama

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے ترکی میں ہونے والی بغاوت کے بارے میں امریکہ کو کوئی علم نہیں تھا یا یہ کہ اس میں کون ملوث ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے 15 جولائی کو ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کا امریکہ میں مقیم عالم دین فتح اللہ گولن یا اُن کے ماننے والوں پر الزام لگایا ہے۔

اوباما نے جمعے کے روز کہا ہے کہ ایسی کوئی بھی بات جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اس حملے کی منصوبہ بندی میں امریکہ ملوث ہے ’’یکسر غلط‘‘ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، میں نے صدر اردوان کو یہ بتا دیا تھا۔

اوباما نے یہ بھی کہا کہ حکومتِ امریکہ کو امید ہے کہ حقائق واضح ہوں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اس پر سخت رد عمل دکھا کر شہری آزادیوں پر بندش کا اقدام درست نہ ہوگا‘‘ ناہی سیاسی مخالفین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے یا حکومت کی تشویش پر آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا جائے۔

اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کی ریاستِ پینسلوانیا میں مقیم عالم دین کی ملک بدری کی ترکی کی درخواست کو امریکی قانونی طریقہٴ کار سے گزرنا ہوگا، اور اسے تبھی منظور کیا جائے گا جب ترکی بغاوت کے پیچھے گولن کے ہاتھ کا ثبوت پیش کرے گا۔

جب سے بغاوت کی کوشش ہوئی ہے، ترکی میں امریکہ مخالف جذبہ زوروں پر ہے، جن میں یہ عام تاثر دیا جا رہا ہے کہ بغاوت میں امریکہ ملوث ہے۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے استنبول میں موجود نمائندے کو کم از کم دو بار برہم جوشیلے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے۔

اس ہفتے ایک انٹرویو میں امور خارجہ سے متعلق اردوان کے ایک مشیر نے بتایا کہ عوام کی برہمی کا سبب دو امریکی سیاست دانوں کی جانب سے کیے گیے ٹوئیٹ کے باعث ہے، جن میں بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی حمایت کی گئی تھی، ایسے میں جب تختہ الٹنے کی کارروائی ابھی جاری تھی۔ اِن میں سے ایک کیلی فورنیا سے کانگریس کے رُکن بریڈ شرمن ہیں۔

ترک حکام نے کہا ہے کہ دوسرا ٹوئیٹ ورجینیا کے وفاقی سینیٹر، رچرڈ بلیک کی جانب سے جاری ہوا۔انقرہ میں ترک مشیر، ایس سوزن اسلر نے کہا ہےکہ ’’دونوں امریکی سینیٹروں نے ٹوئیٹ کیا کہ آج کی اچھی خبر یہ ہے کہ ترک مطلق العنان کو ہٹانے کے لیے فوجی کارروائی جاری ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’یہ تمام ٹوئیٹ ہمارے پاس ہیں۔ ایسے پیغامات ترک عوام کے لیے معاون نہیں بنتے۔ ہماری سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ہم اپنے دوستوں سے یکجہتی کی توقع رکھتے ہیں‘‘۔ تاہم، اسلر نے واضح کیا کہ ترکی امریکہ کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔ اُن کے الفاظ میں ’’سرکاری طور پر ایسی کوئی سوچ نہیں کہ اس بغاوت کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ہے‘‘۔

واشنگٹن میں جمعے کے روز اخباری کانفرنس میں امریکہ میں تعینات ترک سفیر، سردار کلیک نے کہا کہ گولن کی ملک بدری کے معاملے کے بارے میں اُن کا ملک امریکی محکمہٴ انصاف سے رابطے میں ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان وقت کے ثابت کردہ اتحاد کی مناسبت سے طے ہوگا‘‘۔