ترکی: کرد نواز جماعت کا پارلیمان سے علیحدگی کا اعلان

Pro-Kurdish Party

Pro-Kurdish Party

ترکی (جیوڈیسک) ترکی کے وزیر اعظم بینالی یلدرم نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں ’ایچ ڈی پی‘ سے مطالبہ کیا کہ “اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وہ یہ غلطی نا کریں”۔ ترکی میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت کرد نواز ‘ ایچ ڈی پی’ نے اپنے دو اہم راہنماؤں سمیت نو قانون سازوں کی گرفتاری کے بعد اتوار کو پارلیمان سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔

ترکی کے وزیر اعظم بینالی یلدرم نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں ’ایچ ڈی پی‘ سے مطالبہ کیا کہ “اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وہ یہ غلطی نا کریں” اور کہا کہ وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں پارلیمان میں کہیں “تاہم کوئی بھی سیاست دان اپنی پوزیشن کو دہشت گردی کے لیے ڈھال نہیں بنا سکتا ہے۔”

ترکی میں ’ایچ ڈی پی‘ کے دو راہنماؤں صلاح الدین ڈیمیرٹاس اور فِیگن یُکسیکڈا کے علاوہ سات دیگر قانون سازوں کی دہشت گردی سے متعلق الزامات کے تحت گرفتاری کے بعد جمعہ کو بین الاقوامی سطح پر ترکی کے اس اقدام کی مذمت کی گئی۔

ان گرفتاریوں کی بعد مغربی اتحادی ملکوں کی ترکی میں جمہوریت سے متعلق تشویش میں اضافہ ہوا ہے، ترکی نیٹوا اتحاد کا رکن ہے اور وہ یورپی یونین کا رکن بننے کو بھی متمنی ہے۔

ترکی کے صدر نے اتوار کو یورپ پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ‘پی کے کے’ کی حمایت اور اسے اسلحہ فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے اگر وہ انہیں آمر کہتے ہیں۔

’پی کے کے‘ گزشتہ تین دہائیوں سے کرد خود مختار علاقے کے لیے ترکی کی سکیورٹی فورسز کے خلاف برسر پیکار ہے اور یہ شام میں اپنے اتحادی گروپوں اور امریکہ کے معاونت سے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف برسرپیکار ہے۔

کرد نواز ’ایچ ڈی پی‘ جو گزشتہ سال ترکی کی پارلیمان میں شامل ہوئی وہ ملک کے تیسری بڑی جماعت ہے اور پارلیمان میں اس کے 59 قانون ساز ہیں۔ ’ایچ ڈی پی‘ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ اس کا ’پی کے کے‘ کے ساتھ کو ئی تعلق ہے۔

پارلیمان میں اس کے قانون سازوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اردوان (ملک میں) صدارتی نظام کے لیے (قانونی سازی کا) کر سکتے ہیں، واضح رہے کہ ’ایچ ڈی پی‘ نے ہمیشہ سے اس کی مخالفت کی ہے۔

ترکی نے گزشتہ جولائی کے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد عہدیداروں کو معطل کر دیا ہے ان میں فوجی عہدیداروں اور اساتذہ کے علاوہ صحافی بھی شامل ہیں اور اب تک 35 ہزار افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ ترکی اس ناکام بغاوت کا الزام امریکہ میں مقیم مذہبی راہنما فتح اللہ گولن پر عائد کرتا ہے

فتح اللہ گولن کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ جب کہ اردوان کے ناقد کہتے ہیں کہ ترکی کے صدر ہر طرح کے اختلاف رائے کو سختی سے دبا رہے ہیں۔