ترک عوام اور اردگان کی فتح‎

Turkish Military

Turkish Military

تحریر : عماد ظفر
گزشتہ شب ترکی میں مارشل لا کی خبروں اور فوج کے اقتدار سنبھالنے کی خبروں نے پوری دنیا کو متوجہ رکھا. طیب اردگان کے خلاف یہ فوجی بغاوت ترک فوج کے ایک حصے کی جانب سے کی گئی اور فوجیوں نے دارلحکومت انقرہ اور سرکاری ٹیلی ویژن پر قبضہ کر لیا. یہ ایک ڈرامے یا فلم کی مانند تھا فوج کے ٹینک لڑاکا طیارے ترکی کے دارلحکومت پر پرواز کر رہے تھے اور فوج نے سرکاری ٹیلی ویژن پر قبضہ کر کے اعلان نشر کروا دیا تھا کہ ترکی میں مارشل لا لگ چکا ہے اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے. اس خبر کے نشر ہوتے ہی امریکہ کا حسب عادت منافقانہ بیان سامنے آیا کہ ترکی کے عوام پر امن رہیِ اور ترکی سے تعلقات جاری و ساری رہیں گے.

دوسرے الفاظ میں یہ ایک خاموش اقرار تھا مارشل لا کو تسلیم کرنے کا. دوسری جانب ترک صدر طیب اردگان نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکلیں اور فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کریں. اور پھر دنیا نے اور ان گناہ گار آنکھوں نے ایک نیا منظر دیکھا.ترک عوام فوجی ٹینکوں کے آگے کھڑے ہو گئے. ترکی کی پولیس نے باغی فوج پر فائرنگ شروع کی اور پھر انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا.اس فوجی بغاوت میں اعلی فوجی افسران بٹے ہوئے تھے م چیف آف آرمی سٹاف سمیت کئی اعلی افسران طیب اردگان کے ساتھ تھے.

چند گھنٹون کی لڑائی اور عوام کے سڑکوں پر نکل آنے کے باعث باغی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور یوں طیب اردگان مارشل لا کی زد سے بچ نکلے.یہ ایک انوکھا مارشل لا تھا ھو محض چند گھنٹے سے زیادہ نافذ نہ رہ سکا . پاکستان اور ترکی کیونکہ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور اردگان سے موجودہ حکومت کے قریبی تعلقات ہونے کے علاوہ پاکستانی عوام بھی ترکی سے محبت کرتے ہیں اس لیئے اس ساری صورتحال میں پاکستان میں بھی بے چینی پائی گئی. ترکی کے اس بحران اور ناکام فوجی بغاوت نے جہاں نہ صرف اردگان کی مقبولیت پر مہر ثبت کی بلکہ کئی پردہ نشینوں کے چہرے سے نقاب بھی اٹھا دیا. طیب اردگان بنیادی طور پر لبرل نہیں ہیں اور ان کی پالیسیوں کا جھکاؤ تھوڑا مذہب کی طرف ہے.

گو طیب اردگان نے ترکی میں آزادی اظہار اور سوشل میڈیا پر قدغنیں لگائیں جن سے کوئی ذی شعور اتفاق نہیں کر سکتا اور نہ ہی شام میں ترکی کا کردار کوئی قابل ستائش ہے لیکن پھر بھی اردگان کی حکومت ترک عوام میں مقبول ہے جس کا مظاہرہ ہم نے فوجی بغاوت کے دوران دیکھا. اس سارے کھیل کے دوران ہمارے کئی لبرلز حضرات اور بوٹ پالش کرنے والے تجزیہ نگار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ چلو پاکستان میں نہ سہی ترکی میں تو مارشل لا آیا .دوسری جانب عالمی برادری میں واحد جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے دو ٹوک الفاظ میں مارشل لا کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا سارا وزن ترکی کی جمہوری حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا.

Recep Tayyip Erdoğan

Recep Tayyip Erdoğan

اس فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ اور روس کی کس قدر پشت پناہی تھی یہ شاید وقت ثابت کر دے گا لیکن ان دونوں طاقتوں نے طیب اردگان کو سمجھنے میں غلطی کی. طیب اردگان حسنی مبارک کی طرح نہیں ہے اور اس کو ترکی کے عوام کی تائید حاصل ہے جس کی بڑی وجہ اس کے ترک عوام دوارے کیئے گئے فلاح اور معیثت کے بہتر فیصلے ہیں اور ان کے ثمرات عوام تک پہنچے ہیں.طیب اردگان اس نازک موڑ پر ملک چھوڑ کر بھاگا نہیں اور اور خصوصی پرواز سے انقرہ پہنچ گیا جہاں عوام کے جم غفیر نے اس کا استقبال کیا اور یوں فوج کو پسپا ہونا پڑا.

گو ابھی بھی شہر کے چند حصوں میں لڑائی جاری ہے لیکن مجموعی طور پر یہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے. طیب اردگان کو اس کی عوام اور اس کی ریاست کے دوسرے مضبوط اداروں یعنی پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیز نے بچا لیا.لیکن اس سارے واقعے سے طییب اردگان کو بھی سبق سیکھنے کو ملے.وہ سوشل میڈیا جسے طیب اردگان نے پابندیوں کا شکار کر دیا تھا ان مشکل لمحات میں طیب اردگان کے کام آیا اور فیس ٹائم کے ذریعے طیب اردگان نے قوم کو سڑکوں پر نکلنے کا پیغام دیا جسے موبائل کمپنیوں نے بھی صارفین تک پہنچایا وہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز جنہیں اردگان نے قدغنوں کا شکار بنایا تھا اس پوری بغاوت کے دوران اردگان اور اس کے ساتھیوں کو کوریج دیتے رہے.

امید ہے کہ اردگان اب آزادی اظہار رائے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ گیا ہو گا. دوسری جانب امریکہ روس اور ان کے ہس پردہ حلیفوں کو بھی ایک سبق ملا کہ ترکی مصر یا لیبیا نہیں جہاں یکایک حکومت کا تختہ الٹ کر انارکی پھیلا دی جائے. اس ناکام فوجی بغاوت سے ایک بات طے ہو گئی کہ اگر عوام مارشل لا قبول کرنے سے انکارتے ہوئے سڑکوں پر آ کر ٹینکوں کےآگے کھڑے ہو جائیں تو ان سے بڑی طاقت کوئی اور نہیں. ترکی کے عوام نے پوری دنیا کو یہ دکھا دیا کہ جمہور کی طاقت ٹینکوں اور بندوقوں سے کہیں زیادہ ہے.

Turkey

Turkey

ترکی میں فوجی بغاوت اگر کامیاب ہو جاتی تو پورے خطے پر اس کے اثرات پڑتے اور پاکستان بھی ان سے محفوظ نہ رہ پاتا. یہ ناکام فوجی بغاوت ترکی میں جمہوریت کو اور توانا کرنے کے ساتھ ساتھ طیب اردگان کو مزید مضبوط کر دے گی.پاکستان کے سیاستدانوں کو اور عوام کو بھی اس ناکام بغاوت سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے. جب ترکی میں فوج انقرہ پر قبضہ کر رہی تھی تو طیب اردگان کی مخالف اپوزیشن جماعتوں نے بھی فوجی بغاوت کو رد کرتے ہوئے مارشل لا کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.

اسی طرح طیب اردگان کے کئی غیر مقبول فیصلوں اور ناپسندیدہ اقدام کے باوجود ترک عوام نے مٹھائیاں تقسیم کرنے کے بجائے جمہوریت بچانے کیلئے مزاحمت کی اور نتیجتا ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی. اگر ترک عوام بھی ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر مارشل لا کو برا بھلا کہتی یا طیب اردگان بہادری سے انقرہ آنے کے بجائے ملک چھوڑ جاتا تو حالات اور نتائج یکسر مختلف ہوتے. بہر حال اس جرات امحوصکہ مندی اور بروقت بغاوت کو ناکام بنانے پر ترک قوم اور اردگان کو خراج عقیدت .دنیا میں کہیں بھی جمہوریت جیتے تو یہ عام عوام کی جیت ہوتی ہے اور دنیا میں بسنے والے تمام جمہوریت پسند اس میں فاتح قرار پاتے ہیں.

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر