ٹی وی چینلز، پیمرا اور ویلنٹائن ڈے

Valentine Day

Valentine Day

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
ویلنٹائن ڈے ہمارے خطہ میں محبت کے عالمی دن کے موقع گزشتہ دودہائیوں سے بھر پور طریقہ سے منایا جارہا ہے اگرچہ 80 کی دہائی میں بھی کہیں کہیں اِس دن کو منانے کے بارے میں چند لوگ سرگرم نظر آتے تھے اُس وقت میڈیا کی ترقی صرف پرنٹ (اخبارات ) تک محدود تھی میرے قارئین اچھی طرح جانتے ہیں سرکاری ٹی وی اور ریڈیو اُس دور میں اِس قِسم کے دنوں کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے وقت بدلا نوے کی دہائی کے آخر میں الیکٹرانک میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ شہری علاقوں کے بسنے والوں کے گھروں میں جگہ بنانے لگا ڈش کی جگہ کیبل نے لے لی اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی نئے نئے ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا گزشتہ سترہ سالوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان اوربھارت میں ٹی وی چینلز کو نشریات کا لائسنس مل گیا وطن عزیز میں سرکاری ٹی وی کو دیکھنے کا رجحان کم ہوتا گیا پرائیویٹ چینلز خاص طور پر انڈین چینلز نے ہمارے نوجوانوں خاص طور پر خواتین میں مقبولیت حاصل کر لی۔

ان چینلز پرزرق برق لباس میں ملبوس خواتین کے ڈراموں نے ہماری نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کر لیا بحث یہ نہیں کہ ان چینلز پر کیا اَچھا اور کیا بُرا تھا توجہ طلب بات یہ ہے کہ کمرشل بنیادوں پر قائم کیئے گئے ان چینلز نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں وہ کچھ دیکھانا شروع کر دیا جسکا تصور مادر پدر معاشروں میں تو ہوتا ہوگا لیکن ہمارے خطہ میں آٹے میں نمک کے برابر تھا جہاں پر پہلے سارے گھر کے افراد اکھٹے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے تھے آہستہ آہستہ وہاں ایک ہی گھر کے ہر فرد نے اپنی اپنی پسند کے پروگرام منتخب کر لیے جس میں سے چند نے ناچ گانے کے چینلز،اورکسی نے بھارتی میڈیا کے حقیقت سے دور دولت کی چکا چوند میں بڑے بڑے گھروں والے بے سروپا ڈائیلاگ والے ڈراموں کو پسند کرناشروع کر دیا اِس پر ایک اور وار ہمارے ہاں نیوز چینلز نے یہ کیا کہ لائیو کوریج اور کرائم کہانیوںکے نام پر ایسے ایسے پروگرام شروع کیے جنکا معاشرے میں مثبت اثر ہونے کی بجائے منفی اثر زیادہ قبول کیا گیا وطن عزیز میں پچانوے فیصد چینلز نے بھارتی پروگرام یا دیگر ممالک کے پروگرام دیکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کی نیوز چینلز میں بھی گلیمر کو داخل کیا گیا نیوز چینلز پر نیوز کاسٹر کو فلمی اداکاریاماڈل کے روپ میں پیش کرنے کا سہرا ہمارے خطہ کے میڈیا کو بہت جاتا ہے خاص طور پرویلنٹائن جیسے دنوں کو منانے کے لیے بھر پور اشتہار بازی کی گئی جنکا ہمارے خطہ اوراسلامی تہذیب سے دوردور تک کوئی تعلق واسطہ نہ تھا ایسے پروگراموں نے نئی نسل خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا اس بات نے چینلز کے کرتا دھرتوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی۔

قارئین کرام آپ کا میرے خیالات کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں لیکن اگر آپ چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا نے وہ خرافات بھی دیکھانا شروع کر دی ہیں جن سے لبرل سوچ رکھنے والے افراد بھی یہ کہتے سُنے گئے کہ ” جن ممالک میں ایسے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں وہاں بھی دیکھنے والوں کے لیے یہ مسیج نمایاں طورپرسکرین پر آویزاں کیا جاتا ہے کہ بچے نہ دیکھیں یا کوئی دیگر میسج” لیکن ہمارے ہاں چاہے نیوز چینل ہو یا انٹرٹینمنٹ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ چینلز کیا دیکھا نا چاہ رہے ہیں۔

دراصل جب صحافت کی جدید قسم الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے والے بزنس مین داخل ہوئے تو انہوں نے زیادہ سے زیادہ کمرشلز کے لیے وہ کچھ دیکھا یا کہ جس پر اُنکی دولت میں دن دگنی رات چگنی اضافہ ہوا ہمارے ہاںویلنٹائن ڈے کو عام وخاص میں الیکٹرانک میڈیا نے متعارف کروایا جس کی دیکھا دیکھی دیگر کاروباری حضرات نے جن میں کارڈز ،اور تحفہ تحائف بنانے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا جس سے چھوٹے بڑے شہروں یہاں تک کہ قصبات میں بھی ویلنٹائن ڈے سے چند دن پہلے سے دل والے لال رنگ کے سامان کی فروخت شروع ہو گئی جسکو آپ اپنے شہروں میں باآسانی دیکھ اور خرید سکتے ہیں ویلنٹائن ڈے ہے کیا ؟اس کی تاریخ کیا ہے ؟یہ کہاں سے آیا؟ اور کس خطہ میں فروغ پایا اس کے لیے قارئین کرام تاریخ سے کچھ پتا چلتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو منایا جاتا تھا اِسے محبت کرنے والوں کے تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ایک مسیحی راہب تھا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کچھ باتیں اُس سے منسوب کی جاتی ہیں بک آف نالج میں ہے کہ”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ‘ویلن ٹائن’ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔

سترہویں صدی کی ایک پراْمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔” 14فروری کوسینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھا جو ایک راہبہ کی محبت کا اسیر ہوگیاجبکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کو بتایا کہ اسے خواب میں بشارت ملی ہے کہ14 فروری کے دن اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گاراہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں نے عشق میں سب کچھ کرلیا کلیسا کی روایات کے مطابق انہیں ایسا کرنے پر قتل کر دیا گیا بعد میں کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو’شہید ِمحبت’ کا درجہ دیتے ہوئے اس کی یادمیں دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا یہ ہی وجہ ہے کہ مسیحی پادری بھی اِس دن کی مذمت کرتے ہیں۔یہ دن منانے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسیحی راہب ویلنٹائن نے شادیاں کروانے کا جرم بھی کیا کہا جاتا ہے کہ رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے افرادی قوت کی ضروت پیش آئی تو مطلوبہ تعداد حاصل نہ ہوسکی جس پر بادشاہ کے علم میں یہ بات آئی کہ شادی شدہ لوگ اپنے گھربار،بیوی بچے چھوڑ کر جنگ میں جانے کو تیار نہیں ہیں تو بادشاہ نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی کر لی بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی دین اسلام میں غیرمردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور اظہارمحبت کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے حدیث شریف میں ہے کہ بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے (ابن ماجہ )،معاشرہ میں جہاں کہیں بھی بے حیائی ،عریانی اور مردو عورتوں کا چوری چھپے اختلاط عام ہو وہاں رشتوں کا احترام ختم ہوجاتا ہے اور تمام تر برائیاں سرائیت کرنے لگتی ہیں اگر دیکھا جائے تو بطور مسلمان غیر محرم کے ساتھ یوں محبت کا اظہار کرنا کسی طور بھی قابل قبول نہ ہے اگر دیگر مذاہب کو دیکھیں تو وہاں بھی چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ قرار دیا۔

بھارت میں بھی ہندوں کے مذہبی رہنمائوں نے اس دن کو منانے والوں کو خبردار کیا کہ ایسی خرافات سے دور رہا جائے ورنہ انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا وطن عزیز پاکستان میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر پہلی بار پیمرا نے پابندی عائد کی ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی تشہیر یا اس بارے پروگرام نہ کیئے جائیں خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات منانے پر پابندی عائد کی تھی جس کی روشنی میں پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کیں جس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ چلو کچھ دیر بعد ہی سہی حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس تو ہوااب اس پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا پہلے بھی حکومت نے انڈین چینلز پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن پھر بھی کیبل آپریٹر دھرلے سے یہ چینلز چلا رہے ہیں اور تو اورپاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی انڈین ڈراموں ،فلموں کو دیکھایا جا رہا ہے لیکن اس پر کہیں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اسلام میں مردوں کو غیر محرم عورتوں کی طرف بْری نظر وں سے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ خوش نما لباس پہننا، زیور، ہاتھ پائوں وغیرہ کی مختلف آرائش جو عورتیں کرتی ہیں اِس کو اپنے خاوند کے لئے تو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن یہ کچھ پہن کرباہر غیر محرم سے میل ملاقات کی سختی سے ممانعت ہے ۔ باریک لباس یا جس سے جسم نمایاں طور پر نظر آتا ہواسکی بھی ممانعت کی گئی ہے جب کسی بھی قسم کی بداعمالیاں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں تو پہلے اللہ کی رحمت اور قانون اُسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لیںلیکن جب اِس پر بھی وہ اپنی روش نہ بدلیں تو اللہ کا قانوں حرکت میں آتا ہے اور عذابِ آخرت کے علاوہ دنیا ہی میں بھی اُسے ذلیل اور پست کر دیا جاتا ہے۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372