اوفا میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات

Pakistan And India Prime Ministers Meeting

Pakistan And India Prime Ministers Meeting

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
روس کے شہر اوفامیں نواز ،مودی ملاقات ہوچکی۔ یہ ملاقات بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی خواہش اوردعوت پرہوئی جسے وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف نے قبول کرلیا ۔یہ دعوت ایک لحاظ سے نریندرمودی کی مجبوری بن چکی تھی کیونکہ اُن کی بنگلہ دیش میں لاف زنی کواقوامِ عالم میںسے کسی نے بھی پسندنہیں کیااوراُن کی ”بڑھکوں” سے یہ تاثراُبھر کرسامنے آیاکہ بھارت نے دوسرے ممالک کے معاملات میںمداخلت کاوطیرہ اختیارکر رکھاہے ۔اُدھربی بی سی کے پاکستان میں ”را”کے دہشت گردی میںملوث ہونے کے انکشافات نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا اورپاکستان نے ”را”کی مداخلت کوعالمی فورم پراٹھانے کافیصلہ کیا۔ مودی نگاہِ عالم میں اِس معاملے کی ”حدت” کو کم کرناچاہتے تھے اسی لیے اُنہوںنے ایک قدم آگے بڑھ کر میاںنواز شریف صاحب کو ملاقات کی دعوت دے ڈالی۔ دوسری طرف ہمارا”جہنم سے نکلاہوا اتحادی” امریکہ بہادر بھی پاک چائنا بڑھتے ہوئے دفاعی واقتصادی تعلقات اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون سے ناخوش اورپریشان۔

امریکہ بھی چاہتاتھا کہ دونوں سربراہان مذاکرات کی میزپر بیٹھیں تاکہ پاک امریکہ تعلقات میںپیدا ہونے والی سَردمہری میںکچھ کمی کی جاسکے۔ 55 منٹ پرمحیط یہ ملاقات، بَس نشستن ،گفتن ،برخاستن تک محدود رہی۔ تناؤ کایہ عالم کہ دونوں سربراہان کے چہرے سپاٹ اور” مسکراہٹوں ” کا تبادلہ تک مفقود۔ نریندرمودی نے توسفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی گھٹیا حرکت یہ کی کہ اپنی نشست سے چندقدم آگے بڑھ کرمیاںنواز شریف کااستقبال کرنے کی زحمت بھی گوارانہ کی۔ اگرنریندر مودی کاماضی مدّ ِنظرہو تواُس سے اچھائی کی توقع عبث۔ میاںصاحب نے بھی طوہاََوکرہاََ اِس ملاقات پرآمادگی کااظہارکیا کیونکہ اگروہ انکارکر دیتے تواقوامِ عالم میںاچھّا تاثرنہ جاتا ۔

یوںتو اِس ملاقات میں”کَکھ” بھی نہیںتھالیکن ہمارے تجزیہ نگاروںنے آسمان سرپر اٹھارکھا ہے ۔سبھی اپنی اپنی بولیاںبول رہے ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب ابھی روس سے لوٹے بھی نہیںلیکن ملاقات کا ”پوسٹ مارٹم” جاری۔ یوںمحسوس ہوتاہے کہ جیسے ہمارے ”بزرجمہری”تجزیہ نگارسلیمانی ٹوپی پہن کراِس ملاقات میںبنفسِ نفیس شریک تھے کیونکہ جو بات بھی کہی جارہی ہے ،پوری قطعیت کے ساتھ۔ حکومتی تجزیہ نگاراِس ملاقات کے حق میںاورحکومت مخالف تجزیہ نگارمخالفت میںدلائل کے انبارلگا رہے ہیں۔ دراصل ہماری تجزیہ نگاری اب مدح سرائی میںڈھل چکی ہے۔ کوئی ڈیڑھ سوسال پہلے تک فنِ قصیدہ گوئی اپنے عروج پرتھااور درباری قصیدہ گواپنے ممدوح کی تعریف وتوصیف میںزمین وآسمان کے قلابے ملایاکرتے تھے۔ آخری مغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفرکے دَورتک یہ صنفِ سخن جاری رہی ۔ابراہیم ذوق ،بہادرشاہ ظفرکے استادہی نہیں، درباری قصیدہ گوبھی تھے۔ آجکل یہ صنف مفقودلیکن اِس لحاظ سے زندہ کہ ہمارے کالم نگاروںنے اسے اپنالیا ہے۔

Musharraf

Musharraf

اچھا قصیدہ تووہی سمجھاجاتاتھا جس میں ممدوح کی تعریف وتوصیف کے ساتھ مخلصانہ مشورے بھی دیئے جاتے ، خواہ وہ ممدوح کوکتنے ہی ناگوار کیوں نہ گزریں لیکن ہمارے ہاں تو ”پاپی پیٹ” کاسوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے اِس لیے ہمارے لکھاریوں کے کالم تو عمر و عیار کی اس زنبیل کی مانندہیں جس میںمدح سرائی کے سارے گُر،اور یکے بعددیگرے اُن کااستعمال۔ سارے نہیں لیکن غالب اکثریت ایسے ہی لکھاریوں پر مشتمل ہے جنہیں ”درباری لکھاری” کہاجا سکتاہے ۔ایسے درباری لکھاری ایوب خاںسے لے کر پرویز مشرف تک ہر آمر اور بھٹو مرحوم سے لے کرمیاں نواز شریف تک ہرسیاست دان کو تھوک کے حساب سے دستیاب۔ اب تو یہ عالم کہ کالم نگار کا نام سنتے ہی اندازہ ہوجاتاہے کہ وہ کس کے حق میںلکھے گااور کس کی مخالفت میں۔ اسی لیے الفاظ کی حرمت باقی نہیںبچی۔ الیکٹرانک میڈیامیںبراجمان اینکراور ”اینکرنیاں”اپنے ”سیٹھ”کے اشارۂ ابروکے منتظر رہتے ہیںاورسیٹھوں کاایک ہی پیغام کہ ریٹنگ بڑھنی چاہیے خواہ اِس سے ملکی سلامتی کاسوال ہی کیوں نہ اُٹھ کھڑاہو۔ نیوزچینلز میںبھی یہ تفریق بہت واضح نظرآتی ہے اورتقریباََہر چینل پرکسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ”ٹھَپہ” بھی۔ اب اگلے کچھ دنوںتک نواز، مودی ملاقات زیرِبحث رہے گی جس میں ”اپنی اپنی ڈفلی اوراپنا اپناراگ” ۔

تنقیدوتنقیص اپوزیشن کاحق لیکن بغض ، عداوت اورکینے کی بنیادپر نہیں۔ تحریکِ انصاف کی ترجمان محترمہ شیریںمزاری ایک ٹی وی ٹاک شومیں فرمارہی تھیںکہ ”نوازشریف کی جانب سے مودی کی خوشامد افسوس ناک ہے”۔ لگتاہے کہ محترم نجم سیٹھی کی طرح شیریںمزاری کے پاس بھی کوئی چڑیاہے جس نے میاںصاحب کومودی کی خوشامد کرتے ہوئے رنگے ہاتھوںپکڑ لیاکیونکہ شیریںمزاری نہ تواُس ملاقات میںشریک تھیںاور نہ ہی کیمرے کی آنکھ نے میاںصاحب کوخوشامد کرتے ہوئے دکھایا۔ ہم نے تویہی دیکھاکہ میاںصاحب کے چہرے پر تہ درتہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی اوریہ سنجیدگی اُس وقت بھی برقرارتھی جب میاںصاحب ملاقات ختم کرکے باہرنکلے۔شیریںمزاری نے یہ بھی فرمایا” میاںصاحب کی نریندرمودی کوسارک کانفرنس میںشرکت کی دعوت دیناشرمناک ہے”۔ اطلاعاََعرض ہے کہ اگلی سارک کانفرنس پاکستان میںمنعقد ہورہی ہے اورجس ملک میںبھی سارک کانفرنس منعقدہوتی ہے ، اُس کاسربراہ ہمیشہ سارک ممالک کے دیگر سربراہان کوکانفرنس میںشرکت کی دعوت دیتاہے۔ اگرمیاں صاحب نے نریندرمودی کوشرکت کی دعوت دے ڈالی تویہ ”شرمناک” کیسے ہوگئی؟۔

شرمناک تووہ جھوٹ اوریو ٹرن ہیںجوتحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے متواتر بولے جاتے ہیںاوراُن پرجبینِ ندامت ذرابھی تَرنہیں ہوتی۔ سچ کہاتھا خواجہ آصف سیالکوٹی نے ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے”۔ ہم سمجھتے ہیںکہ یہ ملاقات دونوںممالک کے نزدیک محض ایک دکھاواتھی جس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنامحض سعیٔ لاحاصل ۔اِس ملاقات میںکسی نے کچھ کھویا ،نہ پایا۔پاکستان اب بھی بھارتی ”دَراندازی”کا مسلٔہ عالمی فورم پربھرپور اندازمیں اٹھانے کوہے اوربھارت کے رویے میںبھی کہیںلچک دکھائی نہیںدیتی۔ کشمیرکے مسلٔے کووزیرِاعظم پاکستان نے پہلے بھی اقوامِ متحدہ میںبھرپور اندازمیںاجاگرکیا اوراب بھی کریںگے جبکہ بھارت کی ”اٹوٹ انگ”کی رَٹ اب بھی جاری وساری۔ عالمی سطح پرچونکہ ہمیشہ مذاکرات کوہی اولیت دی جاتی ہے اِس لیے نریندرمودی نے بھی اپنی ”خباثتوں” کومذاکرات کی ڈھال کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی ۔اِس کے سواتو ہمیںاِس ملاقات میں”کَکھ” نظرنہیں آتا۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسررفعت مظہر