سمجھنے کا ہے فرق دوستو

Politics

Politics

مشہور کہاوت ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ کہاوت ہی سہی مگر اس دور میں تو سچ ہی ثابت ہوا ہے۔ لیکن سیاست میں نام کی جمہوریت ہو اور ایسا اندھیر ہو یہ سننے میں آج تک نہیں آیا۔ پاکستان میں سیاست اتنی کار فرما ہے کہ شعبۂ حیات میں وہی غالب رہتی ہے جس سے خلوص ایمانداری جانفشانی مفقود ہے ہر ایک اپنی اپنی غیر ذمہ داری کا جواز پیش کرتا نظر آتا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اسے جو کرنا چاہیئے تھا اس نے وہ نہیں کیا اس لئے کام بگڑ گیا۔فروری کے شروع ہونے سے پہلے بیان داغ دیا گیاکہ فروری میں بہت خون ریزی ہونے کو ہے۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا اس کے بعد کوئی معقول طریقہ اختیار کیا گیا کہ دہشت گرد کامیاب نہ ہو سکیں۔

نہیں! کیونکہ فروری تو واقعی خونی ثابت ہو چکا ہے اور اب تو فروری کا آخری ہفتہ بھی گزرنے کو تیار ہے۔ آج ہر شخص اپنی غفلت کو دوسرے کی خطا ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ایسے میں کہاں سے وقت آئے کہ وہ کوششیں ہوں جن سے عوام کو ہر طرح محفوظ رکھنا ممکن ہو سکتا۔ ہر دہشت گردانہ حملے کے بعد الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے خطا کار اپنی خطا تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا دوسرے اسے خطا کار ثابت کرنے ہی میں صلاحیت ضائع کر دیتے ہیں اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو یہ جو دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔

کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ اگر ہر شخص اپنی جگہ مستعد رہے اور ایمانداری سے کام کرے تو کسی کے لئے بھی کوئی تخریبی حرکت کرنا ممکن نہ ہو سکے لیکن ہم خود اپنی اصلاح نہ کرکے دوسروں پر الزام تراشی ہی حب الوطنی سمجھنے لگے ہیں ۔ آج بھی ہماری اصلاح کا طریقہ یہی ہے کہ ہمارے ذمہ جو کام ہے اسے ایمانداری ، محنت اور خلوصِ دل سے کرنا ہی حب الوطنی سمجھیں بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ورنہ اس پر الزام عائد کرنا غصہ غضب کرنا کسی بھی طرح سود مند نہیں ہوگا۔

Quetta Blast

Quetta Blast

کوئٹہ ہو یا کوئی اور شہر جہاں دھماکے ہوئے معصوم لوگ ہی مارے جاتے ہیں۔اور کتنے ہی جسمانی تکلیفوں اور زخموں کے سبب زندگی بھر آنسو بہانے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں ان کا درد کون سمجھے گا جن کے عزیز مارے گئے ان بے یار و مددگار عزیزوں کو کون سہارا دے گا مسئلہ کوئی دو چار آدمیوں کا نہیں بلکہ قوم کا ہے جو کہ اس طرح کی دہشت گردانہ وارداتوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتے رہے ہیں۔آج مسلمان جہاں کہیں بھی آباد ہیں وہ جس قدر بھی پریشان ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ قرآنِ پاک سے دوری اور بیزاری ہے۔

اقبال کی بات سو فیصدی سچ ہے کہ ” ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر ” کیا یہ صرف ہمارا زعم ہی رہے گا کہ ہمارا ملک پُر امن رہے، اور ہم مکمل طور پر محفوظ رہیں؟ کیا یہ دونوں سوال قوم صرف اپنے خیالوں میں پڑھیں گے کہ اس کا تبادلہ ذہن و دماغ سے زمین پر بھی آئے گا۔ ضرور اس بات کی ہے کہ اصل مجرمین کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور دہشت گردی کے خلاف بھی سخت قانون بنایا جائے نہ صرف بنایا جائے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جائے۔ اگر منصفانہ اس کا نفاذ عمل میں آجائے تو عین ممکن ہے کہ اس طرح کی وارداتوں پر شکنجہ کَسا جا سکے اور قومی یکجہتی و امن و امان مکمل طور پر ہمارے ملک میں بحال ہو جائے۔

ہماری آنکھ ہے کیوں نم کوئی پتہ تو کرے
دیئے ہیں کس نے یہ غم کوئی پتہ تو کرے
وہ کون ہے جسے انسانیت سے نفرت ہے
کہاں سے آتے ہیں یہ بم کوئی پتہ تو کرے
کراچی اپنی مخصوص تہذیب اور روایات کے لئے عالمی دنیا پر اپنی ایک منفرد شناخت ہی نہیں بلکہ شہرت بھی رکھتا ہے۔ اس شہر کی مقبولیت کو چار چاند یہاں کو جاگتی راتوں نے لگائے ہیں۔ کیونکہ ہم اسے روشنیوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ اور پھر اس شہر میں بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار بھی واقع ہے۔ گھات گھات کے لوگ اور خاص کر قسم قسم کے کھانے نے اس شہر کی رونقوں اور مشہوری کو بے حد اُجاگر کیا ہے۔ مگر کچھ برسوں سے نہ جانے اسے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ شہر کی تمام رونقیں ، جاگتی سڑکیں، محبت بانٹتے لوگ سرِ شام ہی اپنے گھر کی طرف لوٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

کیونکہ رات تو رات یہاں تو دن میں بھی قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ شہر پر ایک ڈر اور خوف کا سایہ نظر آتا ہے ۔ ان میں کچھ زندہ دلانِ کراچی ایسے بھی ہیں جو اپنی ثقافت، اپنے شہر کی روشنیوں کو بجھنے سے بچانا چاہتے ہیں اور اسی لئے ایسے لوگ شہر میں گھومتے پھرتے اور موج مستی میں بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ شہر کی رونقیں منجمد نہ ہو جائیں۔ اس کی عالمی سطح پر جو دھاگ قائم ہے وہ نہ صرف قائم رہے بلکہ اور زیادہ اس کی واہ واہ ہو۔ خدارا ایسے لوگوں کا ساتھ دیجئے اور یہاں امن و امان قائم کیجئے تاکہ مخصوص لوگ نہیں بلکہ تمام ہی کراچی کے باسی بلا خوف و خطر آزادی کے ساتھ زندگی کے سفر پر رواں دواں رہیں۔ہمارا اور آپ کا کردار جتنا بلند ہوگا ہم اتنا ہی محبتوں کو بانٹنے میں کامیاب ہونگے۔

کرۂ عرض پر سات عرب افراد موجود ہیں جس میں سے نصف حصہ آبادی یا پھر کچھ اس سے زیادہ ہی اپنے اپنے ملکوں میں ناانصافیوں یا پھر ظلم سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم ظلم کی تہذیب یا فطرت سے ماخوذ کرکے اور سب کو بتا کے چپ ہو جاتے ہیں جبکہ ہمیں ہر چھوٹی چھوٹی برائیوں اور خرابیوں آواز اٹھانا چاہیئے اور قانون کو ایسے رکھنا چاہیئے جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ قوم قانون کو سمجھتی ہے اور حد درجہ اس کا احترام بھی کرتی ہے۔ ہونا تو یہی چاہیئے کہ عوام قانون کا احترام کریں اور قانون والے عوام کا احترام ! مگر عموما غیر ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ عوام تو قانون کو سمجھتی ہے مگر قانون نافذ کرنے والے عوام کو بکرا ہی سمجھتے ہیں۔

ظلم کا شکار بھی عوام اور لاٹھی چارج بھی عوام پر۔ ناانصافیوں کا شکار بھی عوام اور واٹر کینن کی دھار بھی عوام پر۔ اور پھر مظلوم و بے کس و شریف لوگوں کو پکڑ کر ان پر مقدمات قائم کرنا ریت و رواج بنایا جا رہا ہے کیونکہ قصور وار تو انہیں نظر نہیں آتے یا پھر وہ کچھ کرکے آتے ہیں کہ ان کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ آپ سب کو پتہ ہے کہ صوبائی خود مختاری کا بل پاس کرانا موجودہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس پر ابھی تک اُس طرح عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے جس طرح کرنا چاہیئے۔ لوگوں کے خیال میں سب سے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ہر صوبے کی مقامی پولیس ہونی چاہیئے۔

Pakistan Police

Pakistan Police

کیونکہ مقامی لوگ پولیس میں ہونگے تو انہیں معلوم ہوگا کہ کہاں کہاں کس کس طرح کے لوگ رہتے ہیں او ر اسی طرح کی اور معلومات کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہوتا ہے اس طرح مجرموں کے خلاف کاروائی کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے ، ناکہ دوسرے صوبوں سے پولیس فورس لایا جائے جنہیں یہاں کے بارے میں کچھ علم ہی نہ ہو اور وہ صرف مخبروں کے ذریعے معلومات کو بیس بنا کر کاروائی کرتے ہیں جس سے بے گناہ افراد بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور مجرم یا ملزم بچ نکلنے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں۔

بس ایسے ہی چند کام اور ایسے ہی چند عمل سے ہمارے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ اور یہ مجرمانہ سرگرمیاں جو بڑھتی ہی جا رہی ہیں ۔ اس بیماری کی تشخیص یہی ہے جسے تحریرکی شکل دی گئی ہے اس کے بعد تو تمام اختیارات حکومتوں کے پاس ہی ہوتے ہیں اب یہ ان پر ہی ڈپینڈ کرتا ہے کہ وہ ان دونوں پہلوئوں میں سے کس کا چنائو کرتے ہیں جس سے عوام کی پریشنانی کا ازالہ ہو سکے۔
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی