کیا یہ بھی مفاہمت کی سیاست ہے؟

Dead Bodies

Dead Bodies

تحریر : ایم آر ملک
شہر قائد میں لوڈ شیڈنگ سے گرنے والی لاشیں حکومتی گڈ گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس سانحہ سے جتنی حکومتی زعماء جان چھڑائیں حقائق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے کے الیکٹرک میں وفاق کے تین نمائندوں کی موجودگی سے انکار کیا جاسکتا ہے ؟سچائی کا ادراک کرنے سے سیالکوٹ کا خواجہ بھی گریزاں ہے اگر وفاق ذمہ دار نہیں تو فیصل آباد کا عابد شیر علی اس منطق پر کیوں قائم رہا کہ کے پی کے میں جو بجلی کا بل نہیں دے گا اُس کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا

اسے ہم تاریخ کا مضحکہ کہہ سکتے ہیں سیاست کا ڈاکٹر بھٹو کی پارٹی کے زوال میں تعطل پیدا کرنے کیلئے سرحدوں کے پاسباں ادارے پر اپنی بوکھلاہٹ کی بوچھاڑ کر رہا ہے زرداری اور شریفوں کے ساتھ کھڑی مشرف رجیم مسخ شدہ آئیڈیلز کی اطاعت پر کمر بستہ ہے پرویز الٰہی کی گاڑی کے آگے بھنگڑے ڈالنے والے طلال چوہدری ،نارووال میں مشرف کے چہیتے دانیال عزیزجیسے سیاسی اداکار مشرف کے بعد اب شریفوں کی تعریف و توصیف میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے پر کمر بستہ ہیں

یہ سوال بھٹو کے حادثاتی داماد اور سیاست کے ڈاکٹر سے جواب مانگ رہا ہے کہ کیا بھٹو کی پارٹی کے اندر ہم وہ شعوری برتری ڈھونڈھ سکتے ہیں ورکرز کے اندر جرات مندانہ سرگرمی ،بے لوث کمٹمنٹ جو پارٹی پالیسیوں کی ضمانت ہوتی تھی تاریخی عمل کا رخ محب وطن اور بے داغ کردار کی لیڈر شپ موڑا کرتی ہے ،فتوحات کے لمحات پارٹی قیادت کے مرہون ِ منت ہوتے ہیں عمران نئے پاکستان کی اُمید بنا تو موصوف کو سڑک پر گھسیٹنے والوں نے 70کھانوں کی ضیافت سجادی یہ بھٹو کے ورکرز کے جذبات کے ٹوٹنے کا عمل تھا جب موصوف مفاہمت کی سیاست چھڑی لے کر ضیافت پر ٹوٹ پڑا

Politics

Politics

یہ مفاہمت کی سیاست میں لوٹ مار ،کرپشن ،عوامی اُمنگوں کی قاتل جمہوریت کو عوام کی تقدیر بنا کر اُس میں محصور کرنے کا عمل تھا بستر علالت پر پڑے کپتان کو الیکشن سے محض تین روز بعد یہ باور کرایا گیا کہ یہ دھاندلی اور آر اوز کا الیکشن ہے مگر خود سیاست کا ڈاکٹر عوامی مینڈیٹ چرانے والوں کے چرنوں میں جا بیٹھا اور اسے جمہوریت کا حسن قرار دیا شہر قائد میں سیاسی اتھارٹی کے نشے میں انسانیت کے قتل کے بے دھڑک سودے کئے گئے یہ فخر ایشیا ء کی پارٹی کا خاصہ نہ تھا ،بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان کے خوفناک کلچر کی پارٹی نفی کرتی ہے

شاہرات پر گھسیٹنے والوں کی مبینہ فتح کی قیمت معاشی پسپائیوں کی صورت میں مفاہمت کی سیاست میں گھرے عوام چکا رہے ہیں ایک ایسا خاندانی شہنشاہیت کا نظام جہاں سیاسی گراوٹ اپنی انتہائوں کو چھورہی ہو ہمارے قدم تیزی سے اُس جانب اُٹھ رہے ہیں جہاں نسل نو کی فعالیت اور بروقت شعوری مداخلت خاندانی شہنشاہیت کا تختہ اُلٹ سکتی ہے ،بے ہنگم اور لغو سیاسی شوروغل کی فضا میں مایوس کن سیاسی سکتے کی طوالت کا سحر ٹوٹنے کو ہے بغاوتوں ،انقلابات کی کوئی زبان ،قوم اور ملک نہیں ہوا کرتے

پاکستان کی بقا کی ضمانت (راحیل شریف )پر سیاست کے ڈاکٹر کی سیخ پائی چہ معنی دارد ؟محض اس لئے کہ وہ دھرتی کا بیٹا ہے عرصہ پہلے اس کے بھائی کی لاش اس دھرتی کی بقا کیلئے گری ،ایک ایسی جمہوریت جو غربت ،ذلت ،اذیت ،محرومی ۔بے بسی ،مجبوری اور عذابوں بھری زندگی کے زخموں پر تضحیک آمیز ہنسی ہنستی رہی اور ایک رکھیل ایان علی اربوں ڈالر دبئی کے محلات میں منتقل کرتی رہی مفاہمت کے سیاسی کھلاڑی بتائیں اس لوٹ مار کو بھی مفاہمت کی سیاست کا نام دیا جاسکتا ہے ؟97ارب ڈالر کی رقم سوئس بینکس میں پڑی ہماری جمہور کا منہ چڑا رہی ہے اتنی بڑی رقم جو 30سال کے ٹیکس فری بجٹ کیلئے کافی ہے ،جس سے چھ کروڑ پاکستانیوں کو جاب مل سکتی ہے ،500سے زائد پاور پراجیکٹس کی تعمیر ہو سکتی ہے جن سے ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جاسکتی ہے،

Dollars

Dollars

ہر پاکستانی 20ہزار روپے ماہانہ 60سال تک لے سکتا ہے بمبینو سینما کے ٹکٹ بلیک میں بیچنے والے ایک بلوچ کو یہ باور کرانا ہے کہ جیلیں مجرموں کی آماجگاہیں ہوتی ہیں وہ دھرتی کے نہیں خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اُن کی پیشانی پر حب الوطنی کا نہیں ”غدار ”کالفظ لکھا ہوتا ہے اور آج آپ کی طرف آنے والے تیر رائے ونڈ کے شریفوں کی کمین گاہوں سے نکل رہے ہیں جنہوں نے آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا آج جب بُرا وقت آیا ہے تو عمران بھی نیازی سے کپتان بن گیا عزیر بلوچ جیسے لے پالک غنڈے قتل کی رزم سجاتے رہے حتیٰ کہ اُس غنڈے سے دختر مشرق محترمہ بے نظیر کے قتل کے اہم گواہوں تک کو رستہ سے ہٹایا گیا

اویس مظفر ٹپی جیسے ڈاکو آپ کی پناہ گاہ سے نکلتے ،اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کو دوام بخشتے ،شریف شہریوں سے بھتہ وصول کرتے اور اُسے بلاول ہائوس پہنچاتے ایک سنگین عہد جس میں نظریاتی ورکروں کا رحجان صبر اور استقامت سے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی اموات کا تماشا دیکھتا رہا شہر قائد میں ہم دھماکہ خیز واقعات کی جانب بڑھ رہے ہیں میٹرو حکمرانوں کے اعداد شمار جھوٹ کی عمدہ مثالیں ہیں شرح نمو جو 4.1فیصد بتائی جاتی ہے در حقیقت 2 فیصد سے بھی کم ہے غربت اور بیروز گاری کو موجودہ سطح پر رکھنے کیلئے 7فیصد کی شرح نمو درکار ہے معیشت کی تباہی کا عکس ہمیں حکمران طبقہ کی عیاشی کی بے ہودہ سیاست میں نظر آتا ہے

تعلیم کا بیڑہ غرق ہو چکا ”ہر بچہ سکول”کے نعرے کی حقیقت یہ ہے کہ اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے پیپلز پارٹی جو کسانوں کے حقوق کی بات کرتی تھی زرداری قیادت کے بعد مفاہمت کی سیاست میں کسانوں سے اُن کی تمام تر حاصلات اور سہولیات چھیننے کا عمل تیز کیا جارہا ہےشہر قائد میں لوڈ شیڈنگ سے گرنے والی 530لاشوں نے اپوزیشن کو متحد کردیا ہے اور جمعہ کو حکومت کے خلاف یوم سوگ دراصل یوم سیاہ ہے

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک