داعی اور خطیبکے اوصاف

International Islamic University

International Islamic University

تحریر: ڈاکٹر محمدی عبدالبصیر
بعثہ ازہر کی جانب سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ اور داعیوں کی صفات و خصائص اور تربیت سے متعلق ایک ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا ۔اس ورکشاپ کا اساسی وبنیادی مقصد یہ تھا کہ داعیوں کو دعوت کے درست وصحیح اسالیب و اصولوں سے متعارف کرایاجائے اور یہ امر کسی بھی قسم کے گروہ پسندی سے پاک رہے کہ اس میں کسی فرقہ بندی کی بات کی جائے بلکہ دیانت داری کے ساتھ صحیح اسلامی دعوت کے اوصاف حمیدہ بیان کیے جائیں اور کمزوریوں سے اجتناب کی نصیحت کی جائے ۔اول:سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ مسلم داعی کی نیت سچائی اور اخلاص پر مبنی ہونی چاہیے،اور دین کی دعوت میں فرقہ بندی کی کوئی تفریق و تقسیم کو مدنظر نہ رکھتاہو،اسلام کی دعوت آسمان سے برسنے والے پانی کی طرح مکمل صاف و پاک ہے ،

البتہ بعد میں اس کو انسان (پانی کے زمین پر آنے کے بعد خراب ہو جاتاہے کی طرح) خراب و گندہ اور آلودہ کردیتے ہی۔ہم اس امر کا اہتمام کرتے ہیں کہ اسلام کی دعوت و پیغام کو اپنی پہلی حالت میں ہی محفوظ ومامون کردیں۔ثانی:دوسرا اہم امر جس کا دعوت و خطابت کے شعبوں سے منسلک افراد کو سامنا کرنا ہوتا ہے وہ یہ کہ جب مجمع سے مخاطب ہوتے ہیں تو ان کے پاس ٹھوس علمی و تاریخی ذخیرہ نہیں ہوتابس چند آیات کے حفظ کرنے اور بعض قصے اور کہانیوں پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کرکے عوام الناس کی داد وصول کرکے اتراتے ہیں اور مجمع کی واہ واہ سے خوش ہوتے ہیں۔

آج کے خطیب وداعی چند ایک کتابوں کو پڑھ کر اور اسٹیج پر بیٹھ کر گفتگوکرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سماج کے بہت بڑے فقیہ وعالم ہیں ۔جب کہ یہ بات مد نظر رہنی چاہیے خطباء اور داعیوں کے کہ وہ جب اسلامی تعلیمات پر گفتگو کرنا چاہیں تو کم سے کم پچاس سے زائد کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی گفتگو میں بیفائدہ و لاحاصل لفاظی اور لہوولعب کا دخل نہ ہواور اسلام کی حقیقی روح میں دعوت کوعوام الناس تک منتقل کرنے کا اہتمام کیاجائے۔

Islam

Islam

ثالث:تیسری بات یہ ہے کہ بہت سے داعی و خطبا ء من گھڑت اور عقل ونقل سے متصادم واقعات و حکایات کا سہارا لے کر عوام کے احساسات کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں اور بد قسمتی سے عوام کی بڑی تعداد جہالت اور اسلام سے ناوقفیت کے سبب ان کی چکنی چپڑی باتوں پران کو دادتحسین دیتی نظر آتی ہے اور ان کے بیان کردہ قصوں اور واقعات کو سند تصدیق بھی فراہم کرتی ہے۔اس طرح کے کمزور واقعات کا سہارا لینے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ عوام کا اعتماد اسلامی تعلیمات پرسے اٹھ جانے کے ساتھ ان کا ایمان متزلزل ہوجاتاہے اور وہ ثوابت اسلامی کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔

رابع:چوتھا امر یہ ہے کہ بہت سے داعی اور خطیب امت کے اجتماعی مسائل سے غافل رہتے ہیں بس ان کے پیش نظر فقط فضائل صوم وصلاة اور پندرہ شعبان یا رجب و محرم کی آمد کے تذکرے رہتے ہیں جبکہ اسلام جو کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتاہے اس کے پیرو خود دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات اور آزمائش ،ان کا قتل عام جو درد ناک انداز سے جاری وساری ہے سے اپنے کو الگ تھلگ رکھتے ہیں ۔گویاکہ ان کو مسلمان کے جان ومال سے کوئی سروکار نہیں اور یہ بات ملت کے اجتماعی مفادت کے حق میں درست نہیں۔

Islamic civilization

Islamic civilization

خامس:پانچویں بات یہ ہے کہ بہت سے خطبا ء اور داعی علم تاریخ کے اصول ومبادی سے ناآشنا ہیں جس کا بدیہی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماضی میں واقع ہونے والے واقعات کو وہ درست انداز میں سمجھ نہیںپاتے ۔تاریخ کے علم کے بارے میں ایک تاثر پھیلادیاگیا ہے کہ اس میں قتل و قتال اور انتقام سیاسی کا دوردورہ رہاہے جبکہ حقیقت تاریخ یہ نہیں ہے کہ اس میں صرف اختلافات اور سیاسی انتقام اور قتل وقتال کا بازار گرم رہا بلکہ یادرکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس نے بہت زیادہ علمی و ثقافتی اور اکتشافی و ایجاداتی خدمات انجام دی ہیں جس کا ثمر آج مغرب و یورپ علم و حضارت کے میدان میں متقدم ہوکر کھارہاہے جبکہ اس کی اساس و بنیاد اسلامی تہذیب و ثقافت اور علم کی تاریخ ہی کی وجہ سے قائم ہوئی ۔

لیکن کمزور علم و عمل اور تاریخ سے ناہنجار داعی و خطبا حضرات اپنی خواہشات نفس کے تابع ہوکر اسلام کے محسنین پر طعن وتشنیع کا بازار گرم رکھتے ہیں جو کہ باعث افسوس امر ہے۔سادس: چھٹی بات یہ ہے کہ داعیوں کو اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ مسلم طبقات میں فقہی اختلافات کا تنوع اور کثرت ہے جس کا مسجدوں اور عوامی اجتماعات میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اختلافی مباحث کے مجال میں متخصصین کو ہی اجازت دی جائے کہ وہ اس پر علمی انداز سے جرح کریں کیونکہ ہر معروف بات قابل بیان نہیں اور ہر کہی جانے والی بات کو بنا وقت و موقع کے نہیں کہا جانا چاہیے۔

Dr.Muhammadi Abdul Basir

Dr.Muhammadi Abdul Basir

تحریر:ڈاکٹر محمدی عبدالبصیر