اردو ادب کا سورج غروب ہوا

Urdu Adab

Urdu Adab

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
روزِ اول سے اِس کرہ ارض پر ہر دور میں کروڑوں انسانوں میں چند افراد ایسے ہو تے ہیں جو سب سے نما یاں ہو تے ہیں کروڑوں کے اِس ہجوم میں زیادہ تر کھا یا پیا افزائش نسل کا حصے بنے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے چلے گئے ‘انسانوں کی اکثریت تاریخ کے کو ڑے دان میں غائب ہو جا تی ہے لیکن بعض اوقات قدرت انسانوں اور دھرتی پر کرم خاص کر تے ہو ئے بے پنا ہ قوتوں کے حامل انسانوں کو بھی پیدا کر تی ہے ایسے لوگ عطیہ خدا وندی ہو تے ہیں اور پھر خدائے بزرگ بر تر سزا کے طور پر اِن کو چھین لیتی ہے ‘کروڑو ں کے اِس ہجوم میں حقیقی انسان کم ہی ہو تے ہیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں رجال کا ر کم ہو تے ہیں جو دیر بعد گلشن ِ حیات میں اترتے ہیں اور پھر دیر تک جریدہ عالم پر ثبت رہتے ہیں ‘مذہب ، سیاست ، علم و فن اور شعر و ادب عرض جملہ گو شہ ہا ئے حیات اِنہی روشن لوگوں کے دم سے آبا د ہو تے ہیں ۔ ملٹی پل صفات سے مالامال یہ خاص لوگ ‘خا ص زبانوں کے لیے ‘خاص رشتوں کے لیے ‘سورج کی طرح کسی خطے میں طلوع ہو تے ہیں یہ لوگ سستے اور عام نہیںہوتے ‘ایسے لوگوں کو پا نے کے لیے ملک کو برسوں گردش کر نی پڑتی ہے چشم فلک خاک چھان کر اُنہیں ڈھونڈتی ہے ایسے گوہر نایاب موتیوں کے لیے صلاف کو برسوں گہرے سمندروں میں مرا قبہ کر نا پڑتا ہے انہی دیدہ وروں کے لیے نرگس کو بہت آنسو بہا نے پڑتے ہیں۔ یہ لو گ کروڑوں دعائوں کا ثمر ہوتے ہیں ‘یہی زمین کا نمک ہو تے ہیں ‘سینکڑوں ذہنوں کا عطر ہو تے ہیں ‘اِن کی سوچ سے دماغ جلا پاتے ہیں اِن کے کردار کی روشنی سے معاشرے حیات نو پاتے ہیں اِن کے وجود سے ملکوں کے نام زندہ ہو جا تے ہیں ‘اِن کے علم کی روشنی سے صدیوں سے بے نو ر اندھی روحوں کو بینا ئی عطا ہو تی ہے۔

انسانیت ایسے نادر اورنابگاہ روزگار انسانوں کی صدیوں راہ دیکھتی ہے اور پھر وہ گھڑی بھی آتی ہے جب ایسے روشنی کے مینار کو چہ فنا میں اُتر جا تے ہیں ‘مو ت بر حق ہے اور بے وقت بھی نہیں آتی اور مسلمان کے طور پر ہمیں شکایت کر نے کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ خا لق ِ کائنات کی رضا میں ہی زندگی ہے مگر بعض اوقات موت ملکوں کو ہلاکر رکھ دیتی ہے بعض اوقات مو ت کے حسن انتخاب کی داد دینی پڑتی ہے وہ گلشنِ حیات سے چن کر وہ پھول تو ڑتی ہے جس کے دم سے بزم حیات مہکتی ہے یہ بزم دنیا کا ایسا چراغ بجھا تی ہے جن کی روشنی سے وہ قائم و دائم ہو تی ہے اربوں انسانوں میں سے ایسے فرد کو اُچک لیتی ہے جس سے انسانیت کا بھرم قائم ہو تا ہے یہ کہکشاں کے اُس روشن ستارے کو بجھاتی ہے جو سب سے روشن ہو تا ہے خاندان کے اُس فرد پر وارد ہو تی ہے جو پو رے قبیلے کی آبرو ہو تا ہے اور دھرتی کو اُس سے محروم کر تی ہے جو زمین کا نمک ہو تا ہے ‘کر ہ ارض پر موجود کروڑوں ایسے انسان ہیں جن کو زندگی کے حقیقی معنوں کا ہی نہیں پتہ ‘جن کا وجود ایک چلتی پھرتی مشین یا لا شہ ہے جن کے پیکر چونا کی ہو ئی قبر کے برابر ہیں جن کا ہونا نہ ہو نے سے بڑا عیب ہے جن کو جن کے مائیں پچھتائیں ‘ایسے لوگ تو رہ جا ئیں اور وہ چلے جائیں جن کی زندگی حاصل بندگی ہو ‘جن کے پیکر نا زش بشر ہوں ‘جن کی سانس علم و فکر کی آس ہو ‘جن کا ہونا غنیمت اور چلے جاناقیا مت ہو ‘جن کو پیدا کر کے ما ئیں تاریخ کے اوراق میں امر ہو جا ئیں ‘جو زاد گان آفتاب ہوں اور منزل نو ر کے مسا فر ہوں۔

برصغیر پاک و ہند کی ادبی تا ریخ میں سب سے اوپر نما یاں نام ماں جی با نو قدسیہ کا ہے جو اردو ادب کے ساتھ ساتھ جہاد زندگی ، خو داعتمادی ، محنت شاقہ اور درویش منش کے حوالے سے سب سے منفرد اور نمایاں مقام رکھتی تھیں جنہیں آخر کار قدرت نے سزا کے طور پر ہم سے چھین لیا ۔ برصغیر کا رہنے والا ہر وہ شخص جو اردو ادب سے واقفیت رکھتا ہے وہ یقینا ماں جی کے نام سے اچھی طرح واقف ہے میری ممدوح نے مردہ لفظوں کو مسیحا بنا دیا ۔ میں خو د کو ان لوگوں میں ہر گز نہیں شامل کر تا جو یہ دعویٰ کر سکتے ہوں کہ انہیں ماں جی کا قرب حاصل تھا تا ہم اِس اعزاز کا حامل ضرور ہوں کہ ماں جی کی طرف سے حو صلہ افزائی اور شفقت میسر رہی اور میرے جیسے مشت غبار حقیر نا چیز کم سواد کے لیے اتنا بھی بہت کچھ ہے کیونکہ مجھے اپنی اوقات کا ہر لمحے اندازہ رہتا ہے۔

Book

Book

مجھے آج بھی وہ رات یا د ہے جب میں چند سال پہلے اپنی کتاب پر چند لفظوں کی بھیک مانگنے اُن کے در پر گیا برادرم اسیر خان نے پہلے سے انہیں میرے با رے میں بتا رکھا تھا کیونکہ روحانیت تصوف ماں جی کا بھی اوڑھنا بچھونا تھا میری کتاب روحانیت تصوف پر تھی اور پھر جب میں بے ترتیب سانسوں سے اُس کمرے میں داخل ہو ا جہاں برصغیر کی سب سے بڑی لکھا ری وہیل چیر پر موجود تھیں رنگ و نور میں لپٹی ماں جن کے چہرے پر سینکڑوں نو ری چاند روشن تھے اور پھر میرے با طن سے عقیدت و احترام کا انہار ابل پڑا میں بڑھا اور جا ں کر ماں جی کے قدموں میں بیٹھ گیا ما ں جی نے میرے سر پر ہا تھ رکھا تو اُن کی روشن آنکھوں سے چھلکتا نور میرے باطن کے نہاں خانوں کو روشن کر تا چلا گیا پھر ماں جی بولتی رہیں میںبت بنا اپنی آنکھوں کو روشن کر تا رہا ماں جی کی شہد میں لپٹی آواز میرے کانوں میں رس گھو لتی رہی اور پھر یہ اعزاز مجھے بعد میں بھی ملتا رہا ۔ ”ایک دن ان کے کو چے سے گزرا تھا میں ‘ پھر یہی روز کا مشغلہ بن گیا ” والا معاملہ بن گیا ۔ ماں جی بلا شبہ برصغیر میں ادب کا وہ سورج تھیں جن کی روشنی سے ہزاروں میرے جیسے اندھوں نے روشنی سمیٹی ‘ماں جی 28نو مبر 1928کر مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پو ر میں پیدا ہو ئیں پاکستان بننے کے بعد لا ہو ر کو رونق بخشی آپ بچپن میں ہی یتیم ہو گئیں تھیں آپ کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔

پانچویں جماعت سے لکھنا شروع کیا جو 88عمر تک جا ری رہا 1949میں گورنمنٹ کالج لا ہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا یہاں پر اشفاق احمد سے ملا قات ہو ئی جو اُن کے کلا س فیلو تھے 1956میں آپ کی شادی اشفاق احمد سے ہو گئی اور پھر اِس جو ڑے نے ریڈیو ٹی وی کے لیے لکھنا شروع کیا پاکستان ٹی وی کے شاہکار ڈرامے اِن دونوں کے حصے میں آئے لیکن 1981میں شا ئع ہو نے والا نا ول راجہ گدھ بانو قدسیہ کے شہرت کے آسمان پر ابد تک امر کر گیا جس طرح با نو قدسیہ جی نے اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو انتشار کا سبب بتایا اِس نے قاری کو سحر زدہ کر دیا با نو جی نے 27کے قریب نا ول کہا نیاں اور ڈرامے لکھے ‘راجہ گدھ کے علا وہ امر بیل ‘باز گشت ‘دوسرا دروازہ ‘تمثیل ‘حاصل گھاٹ ‘آدھی بات ‘ایک قدم ‘بابا صاحبا ‘ دست بستہ ،دوسرا قدم ، فٹ پاتھ کی گھاس ، ہوا کے نام ، موم کی گلیاں ، پیا نام دیا ‘شہربے مثام ، سورج مکھی ایسے بے مثال ادب کے شہ پارے ہیں کہ جب تک اردو ادب زندہ ہے با نو قدسیہ جی کا نام امر رہے گا ۔ موم کی گلیاںپر جو آپ لکھ گئیں ہیں اور اِس کے با رے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

لکھنے والے تو ہزاروں ہیں لیکن جو انداز قدرت نے ماں جی کو بخشا تھا یہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا بعض لوگ علم کا سمندر ہو تے ہیں لیکن کسی پیا سے کو چلو بھر پانی نہیں دیتے جبکہ آپ کی کو ئی کتاب آپ اٹھا لیں آپ کی سوچ کے دریچے وا کر تی چلی جا ئے گی ۔ آپ کی ہر تحریر دوسروں سے بہت منفرد اور چشم کشا ہے قاری اُس کے سحر میں اِسطرح ڈوبتا ہے کہ دنیا ما فیا سے بے خبر ہو جا تا ہے آپ کی تحریروں میںبے جا ن مردہ لفظ بو لتے نظر آتے ہیں وطن عزیزمیں آجکل دانش وروں کو لکھا ریوں کو مغرب نوازی کا دورہ پڑا ہو ا ہے ہر دانشور مغرب نوازی کی جگالی کر تا نظر آتا ہے مغرب نوازی بڑے لکھاری ہو نے کی وجہ سمجھی جا تی ہے جبکہ ماں جی نے پو رے فخر کے ساتھ مشرقی اسلامی روایات اخلا قیات قدروں کو زندہ جا وید کر دیا ہے آپ جیسے لوگ لیل و نہا ر کی ہزار گردشوں کے بعد نمو دار ہو تے ہیں۔
بھیڑ میں دنیا کی جانے وہ کہاں گم ہو گئے
کچھ فرشتے بھی رہا کر تے تھے انسانوں کیساتھ

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956