امریکی ڈرون حملے قبول نہیں

Condemns drone attacks

Condemns drone attacks

تحریر : سید توقیر حسین
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ناکامی کوئی آپشن نہیں’ ضرب عضب اپریشن میں 99 فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے’ باقی ایک فیصد بھی جلد ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملہ افسوسناک اور پاکستان کی خودمختاری کیخلاف ہے۔ ڈرون کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا’ یہ بند ہونے چاہئیں۔ ڈرون حملوں کی مذمت بہت چھوٹا لفظ ہے’ اس معاملے کو تمام متعلقہ فورمز پر بھرپور طریقے سے اٹھایا جارہا ہے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر پہلے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرچکے ہیں۔ یہ بلوچستان میں گزشتہ 21 مئی کو پہلا ڈرون حملہ تھا جس میں افغان طالبان کے امیر ملااختر منصور مارے گئے تھے۔

جنرل راحیل شریف نے حملے پر تشویش کا اظہار امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے کیا، جنہوں نے راولپنڈی میں ان سے ملاقات کی تھی۔ فوج کے سربراہ نے اس موقع پر امریکی سفیر کو باور کرایا کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی اور دوطرفہ تعلقات کیلئے نقصان دہ ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں امن عمل اور علاقائی استحکام کیلئے بھی سود مند نہیں ہیں۔ امریکہ کے ڈرون حملوں کیخلاف حکومتی’ سیاسی اور سماجی سطح پر آواز بلند ہوتی رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان پر حملوں کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیدی تو امریکہ نے پاکستان کو طالبان پر ڈرون حملوں کی آڑ میں نشانہ بنانا شروع کر دیا جس میں پاکستان اور امریکہ کو مطلوب شدت پسندوں سے زیادہ بے گناہ لوگ مارے گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

pakistan

pakistan

جنرل پرویز مشرف کی پروردہ حکومت نے بھی ان حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیخلاف قرار دیا تھا مگر امریکہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی’ پیپلزپارٹی کے دور کے بعد مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور حکومت میں بھی ڈرون حملوں کا تسلسل جاری ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکہ 2004ء سے اب تک ہماری سرزمین پر 390 ڈرون حملے کرچکا ہے’ ان حملوں پر احتجاج کی پالیسی مشرف کے آمرانہ اور نیم جمہوری دور کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے جمہوری ادوار میں یکساں رہی ہے۔ مذمت’ شدید مذمت’ امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج اور تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے مگر امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے احتجاج کو اہمیت کیوں نہیں دیتا۔اس راز سے پردہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وکی لیکس میں یہ کہہ کر اٹھایا گیا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ سے کہا آپ حملے جاری رکھیں’ ہمارے احتجاج کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔

بادی النظر میں یہ درست بھی ہے کیونکہ امریکہ کے ڈرون حملوں میں پاکستان کو مطلوب کئی دہشت گرد بھی مارے گئے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت امریکہ کو کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ ملتا ہے تو اس پر حملے کیلئے وہ پاکستان کو آگاہ کرے مگر عملی طور پر اسکے برعکس ہوتا نظر آتا ہے۔ خود حملوں کا کہہ کر اس پر رسمی احتجاج منافقت ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے بعد امریکی ڈرون حملوں پر احتجاج اس سے بھی بڑی منافقت ہے۔ اگر آپ نے کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے بارے میں امریکہ کو اجازت دی ہے تو قوم کو سچ بتانے کی اخلاقی جرآت ہونی چاہیے۔

US drone attack

US drone attack

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کا ملا منصور اختر پر امریکی ڈرون حملے پر استدلال تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا’ اس حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا درست نہیں’ اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے مگر ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پاس ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جاسکے۔” معاون خصوصی نے جو فرمایا اس سے لگتا ہے وہ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا وہ خود کو فریب دے رہے ہیں۔ پاک فضائیہ کے کم از کم دو سابق ایئرچیف اپنی ملازمت کے دوران قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ پاک فضائیہ کے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت ہے۔ ایئرڈیفنس اگر ڈرون کی نشاندہی نہیں کر سکتی تو اس پر اربوں کے اخراجات کرنے کی ضرورت کیا ہے’ اسے بند کر دیں۔ پاکستان کے پاس ڈرون کی نشاندہی کرنے اور اسے گرانے کی مکمل صلاحیت ہے جس کا مظاہرہ بھارت کا قصور کے قریب ڈرون گرا کر کیا جاچکا ہے’ اس صلاحیت کو بروئے کار نہ لانا بزدلی نہیں تو مصلحت ضرور ہے جس کے تحت رسمی احتجاج کیا جاتا ہے۔

جان کیری کہتے ہیں کہ ملا اختر منصور پر حملے کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کر دیا تھا’ انکی وزیراعظم نوازشریف سے بھی بات ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے تشویش کا اظہار کیا نہ ان حکام نے احتجاج کیا جن کو امریکہ نے حملے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ تیسرے روز وزارت خارجہ سیاپا کرتی نظر آئی’ وزیر داخلہ بھی اشتعال میں دکھائی دیئے۔ وزیراعظم کو لندن جا کر تشویش کا اظہار کرنا یاد آیا۔ پاکستان کے پاس خدا کے فضل سے نہ صرف ڈرون کی نشاندہی کرنے اور اسے گرانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے بلکہ پاکستان خود ڈرون بنا چکا ہے۔ امریکہ کا پاکستان کے اندر پاکستان کی اجازت کے بغیر ڈرون حملے کرنے کا کوئی اختیار کبھی نہیں تھا اور اب جبکہ پاکستان کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے تو امریکہ کے پاس پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے کا سرے سے جواز نہیں ہے۔

parliment

parliment

پارلیمنٹ پاکستان کی حدود میں حملے کی غرض سے داخل ہونیوالے ڈرون کو مار گرانے کی منظوری دے چکی ہے’ حکمران طبقہ منافقت اور مصلحت سے کام نہ لے اور جرآت کا مظاہرہ کرے تو ڈرون گرائے جاسکتے ہیں۔ ایران نے دو امریکی ڈرون مار گرائے’ ایک کو بحفاظت اتار لیا۔ پاکستان کے پاس تو ایران کے مقابلے میں کہیں زیادہ معیاری اورجدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ ضرب عضب میں 99 فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے تو مزید ایک فیصد کیلئے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ اگر اجازت نہیں دی گئی تو ان ڈرونز کو کیوں مار نہیں گرایا جاتا۔ بالفرض پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اور اصل مقصد ڈرون گرانا نہیں ڈرون حملے بند کرانا ہے تو وہ امریکہ پر دبائو ڈال کر بھی بند کرائے جاسکتے ہیں۔

سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں اور مابعد پاکستان کے اقدامات کی ذرا یاد ذہن میں تازہ کریں’ پاکستان نے نیٹو کی سپلائی بند کرکے امریکہ کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ امریکہ کے ہزاروں فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں’ انکی ضروریات پاکستان کے ذریعے پوری ہوتی ہیں’ پاکستان امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر کئی اور طریقوں سے بھی مجبور کر سکتا ہے۔ ضرورت تھوڑی سی جرا?ت’ ہمت’ حمیت کی اور مفادات سے بالاتر ہونے کی ہے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر حسین