یو ایس اے انتخابات

Donald Trump

Donald Trump

با لاخر نتیجہ کا اعلان ہو گیا اور امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے 70 سالہ بوڑھے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیا۔ یہ فتح عالمی میڈیا میں بریکنگ نیوز تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام اعدادو شمار کے گرو اُن کی فتح سے حیران بھی تھے۔ میں نے یہ الیکشن بہت نزدیک سے فالو کئے ہیں، میں وہاں کے لوکل رپورٹرز سے بھی رابطے میں تھا۔سب ہی حیران تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیسے فتح حاصل کر لی جبکہ تمام ہی بڑے ابلاغ کے ادارے ‘ تھنک ٹینکس اور الیکشن گرو ٹرمپ کے ہارنے کی پیش گوئی کر رہے تھے ۔ حتیٰ کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہیلری کی فتح کے امکانات 84 فیصد اور ٹرمپ کی فتح کے امکانات16فیصد ہیں۔ آج کے تمام اخبارات کی شہ سرخی ٹرمپ کی حیران کن فتح ہے ۔ اس فتح کے ساتھ ہی امریکہ کے ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی’ دنیا پھر کی اسٹاک مارکیٹس میں بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اور کینیڈا کی امیگریشن ویب سائٹ کا سرور ایک دم سے ٹریفک بڑھ جانے کی وجہ سے کریش کر گیا۔

امریکہ میں صدارتی نظام نافذ ہے۔ انتخابات میں امریکی صدر اور اُس کے نشان کو براہ راست ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے لیکن پھر الیکڑال کالج ہی حتمی فیصلہ کرتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ امریکی الیکٹرال کالج کیا ہے جو کہ کسی بھی امیدوار کی فتح میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ساد ہ الفاظ میں یہ وہ سیٹیں ہوتی ہیں جو ریاست کے حساب سے حاصل کی جاتی ہیں۔ پورے امریکہ میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی اتنی اہمیت نہیں رکھتی ہے جتنی کہ کل سیٹیں اہمیت رکھتی ہیں ۔ فرض کیجئے کہ نیو یارک ریاست کیلئے الیکڑال کالج کی تعداد 28ہے یعنی یہاں سے 28ایسے ممبران ہونگے جو ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں جائیں گے۔اب فرض کیجئے کہ یہاں سے ہیلری کو 15′ ٹرمپ کو 11اور کسی اور پارٹی کو2الیکڑال کالج حاصل ہوئے تو امریکی قانون کے مطابق یہ تقسیم نہیں ہونگے بلکہ نیو یارک ریاست کا پوراالیکڑال کالج یعنی 28نمبرز ہیلری کے کھاتے میں جائیں گے اور یہ 28آخر میں ہیلری کو منتخب کرنے کے پابند بھی ہونگے۔

میں نہیں جانتا کہ انہوں نے یہ نظام کیوں وضع کیا ہے لیکن اسی کی وجہ سے 2000ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار الگور کے مقابلے میں ریپبلکن امیدوار جارج بش کو فتح حاصل ہوئی تھی ۔ حالیہ انتخابات میں بھی ہیلری کے پاپولر ووٹس ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود ہیلری کلنٹن الیکڑال کالج سسٹم کی وجہ سے ہار گئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 5کروڑ96لاکھ 47ہزار 621ووٹس ہیلری کلنٹن کو حاصل ہوئے تھے جبکہ ٹرمپ کو 5کروڑ38ہزار 580ووٹس حاصل ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہیلری کے ووٹس ٹرمپ سے 2لاکھ 9ہزار41زیادہ ہیں لیکن چونکہ پیچیدہ الیکٹرال سسٹم کے تحت ٹرمپ کو279الیکٹرال ووٹس مل چکے ہیں تو وہ امریکہ کے 45ویں صدر کہلائے جائیں گے۔ ہیلری کو ٹرمپ کے مقابلے میں 228ووٹس ملے ہیں۔ اس وقت امریکی سینٹ میں ہیلری کی پارٹی کے 48ارکان اور ٹرمپ کی پارٹی کے 51امیدواران ہیں اور ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کی پارٹی کے 239اور ہیلری کی پارٹی کے 193ارکان ہیں ۔ ہیلری کلنٹن کو کل ووٹس کا 47.7فیصد’ ٹرمپ کو 47.5فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ باقی ماندہ ووٹس دیگر تین امیدواران نے حاصل کئے ہیں۔

Trump or Clinton

Trump or Clinton

ٹرمپ کے امریکی تاریخ کی متنازعہ ترین انتخابی مہم چلائی ہے ۔ انہوں نے ہیلری سے تینوں صدارتی مباحثوں میں بھی شکست کھائی تھی ۔ ٹرمپ پر ٹیکس چوری کے الزامات تھے ، اس پر عورتوں کے بارے میں نازیبا بیانات کے ثابت شدہ الزامات تھے’ اس پر اخلاقی گراوٹ کے الزامات تھے’ عورتوں سے دست انداز ی کے الزامات تھے ‘ نسل پرستی اور بنیاد پرست وہ ثابت ہو چکے ہیں’ امریکہ میں اسلام تیسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور ٹرمپ کے مسلمانوں کے بار ے میں سخت خیالات ہیں، ٹرمپ خود ایک یہودی ہیں اور کٹر یہودی ہیں۔ الغرض کہ نہ صرف ٹرمپ کی انتخابی مہم متنازعہ تھی بلکہ وہ خود بھی ایک متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ پھر انہوں نے کیسے کامیابی حاصل کی؟ کیسے انہوں نے عالمی میڈیا کی رائے کو غلط ثابت کیا؟ اس کا بھی سادہ سا جواب ہے کہ اُس نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے خود بنائی تھی ۔ اس بنیاد پرست شخص نے وطن پرستی کا کارڈ کھیلا تھا۔ اس نے اوباما انتظامیہ کی ناکامیوں کو اس شدت سے بیان کیا کہ لوگ سمجھنے لگے کہ اگر ہم نے دوبارہ سے کسی ڈیموکریٹ کا انتخاب کیا تو امریکہ کیلئے خطرہ اور بڑھ جائے گا۔ اس نے لوگوں کو اُن کی مرضی کا سچ سنوایا تھا اور وہ جیت گیا۔ ”آؤ امریکہ کو دوبارہ سے عظیم بنائیں” یہ وہ نعرہ تھا جو لوگوں کو محسور کرتا تھا اور وطن پرستی کے اسی بیج نے ٹرمپ کی فتح کی راہ ہموار کی اور رہی سہی کسر الیکڑال کالج کے پیچیدہ نظام نے پوری کر دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہوگا؟اس کا جواب دینے سے پہلے سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی ایک پوسٹ کا ترجمہ پڑھ لیجئے ۔ یہ ٹرمپ کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونیوالا تخیلاتیمکالمہ ہے ۔

صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کا صدارتی آفس میں پہلا دن۔۔۔!
پینٹاگان’ سی آئی اے اور ایف بی آئی کی جانب سے پہلی بریفنگ کی روداد
ٹرمپ: بغیر کسی انتظار کے ہمیں داعش کو تباہ کر دینا چاہئے ۔
سی آئی اے: ہم ایسا نہیں کر سکتے ہیں سر۔ ہم نے ہی اس کی تخلیق کی ہے اور یہ ہمار ے لئے فائدہ مند ہے۔

ٹرمپ: ہمیں اس سے کوئی خطرہ ہے؟
سی آئی اے: جی نہیں! یہ مشرق وسطیٰ کیلئے بنائی گئی ہے اور اگر ہم اس کو تباہ کرتے ہیں تو قدرتی گیس اور تیل کی لابی کی جانب سے ملنے والے اربوں ڈالر کے ماہانہ فنڈز ختم ہو جائیں گے جس کے بعد شاید آپ وائٹ ہاوس کے اخراجات بھی پورے نہ کر سکیںکیونکہ جس صدارتی طیارے میں آپ سفر کریں گے اُس کا خرچہ 2لاکھ ڈالر فی گھنٹہ ہے۔
ٹرمپ : پھر پاکستان کو فنڈز کی فراہمی روک دو، بھارت اُس خطے میں ہمارا دوست ہے وہ پاکستان کو دیکھ لے گا۔

سی آئی اے : یہ بھی ممکن نہیں ہے
ٹرمپ: کیوں؟
سی آئی اے: پھر بھارت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر سکتا ہے۔
ٹرمپ: مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
سی آئی اے: اسکے بعد کشمیر میں امن ہو جائے گا اور بھارت اور پاکستان ہم سے ہتھیاروں کی خریداری بند کر دیں گے۔ شاید دونوں ہی اپنے مسئلے خود حل کر لیں اور اس طرح سے ہم اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ بھی کھو دیں گے ۔ ہمیں دونوں کو ساتھ رکھنا ہے ۔ ہم پاکستان کو فنڈز کی فراہمی نہیں روک سکتے ہیں۔

ٹرمپ: اچھا تو پھر طالبان سے نمٹ لیتے ہیں ۔
سی آئی اے: جناب صدر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے ہی روس کو تباہ کرنے کیلئے طالبان تیار کئے تھے ۔ اب طالبان نے پاکستان کو مصروف کیا ہوا ہے ۔ یہ بھی اچھا ہے کیونکہ پاکستان ہم سے ہتھیار خریدتا ہے جو کہ ہماری معیشت کیلئے فائدہ مند ہے۔
ڑمپ: ٹھیک ہے ، لیکن ہمیں مشرق وسطیٰ میں تو کام کرنا ہے ۔ وہاں پر دہشت گردوں کی معاون ریاستیں موجود ہیں۔

Trump and Pentagon

Trump and Pentagon

اب پینٹاگون کا افسر بولا : جناب صدر! ہم وہاں پر ایسے کام نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے ہی وہ ریاستیں تخلیق کی تھیں کیونکہ ہم اُن کے تیل پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ اگر وہاں پر جمہوری نظام رائج ہو جاتا ہے تو اُن کے لوگ اپناتیل اپنی مرضی سے استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر روس کے ساتھ ہم تیل کی مسابقت میں پیچھے رہ جائیں گے جو کہ ہماری اپنی معیشت کیلئے زہر قاتل ہوگا۔

ٹرمپ: پھر ایران سے تو نمٹنا ہی ہوگا؟ وہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔
پینٹاگون: نہیں ہم ایران کو ابھی نہیں چھیڑیں گے۔ ہم اُن سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم نے اُن سے اپنے اسٹیلتھ ڈرونز واپس لینے ہیں ۔اگر ہم نے ایران پر کسی بھی وجہ سے حملہ کیا تو یہ ٹیکنالوجی ایران روس کو دے دے گا۔ اس کے بعد ہمارے لئے مزید مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ کیا آپ اپنے دور اقتدار میں مشکلات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں؟اس کے علاوہ ہمیں اسرائیل کواس کی حدود میں رکھنے کیلئے بھی ایران کی ضرورت ہے ۔

ٹرمپ: تو پھر ہمیں عراق پر دوبارہ حملہ کرناہوگا؟
سی آئی اے: سر ہمارے دوست داعش نے پہلے ہی عراق کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔
ٹرمپ: تو انہوں نے پورے عراق پر قبضہ کیوں نہیں کیا ہوا ہے؟
سی آئی اے: کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کی موجودہ حکومت داعش کو اُس کی حدود میں رکھے۔ ہمارے ہی ہتھیار دونوں طرف استعمال ہو رہے ہیں جو کہ ہماری ہی کمپنیوں سے خریدے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ: اچھا تو پھر مسلمان مہاجرین اور دیگر مسلمانوں کا ملک میں داخلہ بند کرنا ہوگا؟ وگرنہ یہاں پر بھی قتل و غارت ‘ خونریزی اور انتہا پسندی کے واقعات ہونے لگیں گے۔
اس موقع پر ایف بی آئی کے نمائندے نے کہا : یہ بھی ممکن نہیں ہے جناب صدر! کیونکہ اس کے بعد ہماری اپنی آبادی بے خوف ہو جائے گی۔ اگر آپ تمام مہاجرین کو ملک کے جنوبی حصے کی جانب دھکیل دیں یا اُن کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیں گے تو ملک میں طبقاتی تقسیم میں کمی ہو جائیگی ۔ یہ ہمارے معاشرے کیلئے نقصان دہ ہے ۔ ہمیں اِن کی ضرورت ہے تاکہ ہم سستے داموں کام کروا سکیں۔

ٹرمپ نے اب کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے سوال کیا،’تو اب میں بحیثیت صدر کیا کروں؟’ اس کے جواب میں سی آئی اے نمائندے نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ جناب صدر! آپ آرام کیجئے۔ ہم آپ کو وقتاً فوقتاً بریفنگ دیتے رہیں گے کہ کیا’ کب اور کیسے کرنا ہے۔ آپ یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔
میں نے یہ مکالمہ اس لئے آپ کے ساتھ شیئر کیا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ حقیقت ہے۔ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد بھی معاملات میں خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔اُس کو جن قوتوں نے صدر بنایا ہے وہ اُس کو اپنے مطابق اور اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کر یں گے۔یہ تو خود کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں جن کی ڈوریں حقیقت میں کوئی اور ہلاتا ہے ۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اگر کوئی صدر اپنی مرضی سے ہلنے کی کوشش کرے تو ضرورت پڑنے پر اُس کا حال بھی جان ایف کینیڈی جیسا ہوتا ہے ۔ اللہ کرے کہ دنیا میں مزید فساد نہ پھیلے کیونکہ انتخابی مہم کے دوران جو باتیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہی تھی یا اُس سے کہلاوائی گئیں تھی’اُس کے مطابق تو اللہ رحم ہی کرے۔

Salaar Sulaman

Salaar Sulaman

تحریر: سالار سلیمان
@salaarsulaman