امریکا سے جان چھڑا لینا چاہیے

America

America

تحریر : میر افسر امان
امریکا کے ایک مشہور و معروف سابقہ وزیر خارجہ یہودی ہنری کیسنگر نے کہا تھا کہ امریکا کی دشمنی اچھی نہ دوستی اچھی۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بھی امریکا پاکستان کے تعلوقات کے بارے میں درجنوں کالم تحریر کر چکے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے امریکا پاکستان کا نام نہاد دوست ہے اس دوستی اور امریکی امداد کی اتنا زیادہ تشہیر کی گئی جیسے امریکا کی مدد کی وجہ سے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلی ہیں۔ اس کے برخلاف پاکستان اب بھی غریب ملکوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی ہورہی ہے۔ساری دنیا کے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں جس میں بھارت، اسرائیل ،افغانستان اور امریکا سرفہرست ہے۔اس کا ذکرہمارے سپہ سار نے اپنی حالیہ بیان میں امریکی وفد کے سامنے کیا ہے۔بجلی اور گیس کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔ برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی دوستی کی آڑ میںامریکا نے پاکستان کو انڈسٹریل ملک نہیں بننے دیاکیونکہ اس میں پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرتا۔امریکا نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ میں دفاعی سامان کے فاضل پرزے بند کر کے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا۔ سینٹو ، سیٹو دفاعی معاہدوں کے باوجود ١٩٧١ء پاکستان کی مدد نہیں کی۔ کہا کہ مدد کے لیے امریکی ساتواں بحری بیڑا آرہا ہے جو کبھی بھی نہ آیاور بھارت نے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔پہلے کی طرح اب پھر ایف سولہ کا معاہدہ ختم کر دیا۔بزدل ڈکٹیٹر کمانڈو پرویز مشرف نے ایک ٹیلیفون کال پر امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ ملک کے بحری، بری اور فضائی راستے امریکا کے حوالے کر دیے تھے۔ اس کی سزا پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔

پاکستان دہشت گردی کے خاتمے میں امریکا کا فرنٹ مین اتحادی رہا ہے۔ امریکا کے کہنے پر شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریش کیا گیا جس کی امریکا اور پوری دنیا نے تعریف کے پل باندھ دیے تھے۔اس کا صلہ یہ دیا کہ جس افغان لیڈر کو پاکستان مذاکرات کی میز پرلایا اور مری میں چار ملکوں نے مذاکرات کیے ۔ امن چاہنے والے افغان لیڈر کو پاکستان کے اندر ڈرون حملہ کر کے پاکستان کی ساورنٹی کا خیال نہ کرتے ہو ئے قتل کر دیا۔ اس سے قبل بھی امریکا سلالہ پوسٹ پر حملہ کر کے ہمارے فوجیوں کو شہید کر چکا ہے جس سے اس کے ارادے ظاہر ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے مرحوم سابق آئی ایس آئی کے سربراہ اور اسلام کے شیدائی جنرل حمید گل کی کہاوت صحیح ثابت ہوتی جارہی ہے کہ” نائین الیون بہانہ پاکستان نشانہ اور افغانستان ٹکانہ” کی سازش ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملا اخترمنصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوا تو یہ کام تو ایران میں بھی ہو سکتا تھا مگر پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔اس بین الاقوامی خلاف ورزی پر ہمارے سپہ سالار نے امریکا کے سفیر کو راولپنڈی فوجی ہید کواٹر میں بلا کر سخت احتجاج کیا تھا جبکہ سول حکومت خاموش ہے۔ اب امریکی صدر کے مشیر کی پانچ رکنی وفد پاکستان آیا ہے۔ اوباما کے مشیر پیٹر لیوے کی جانب سے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ اور ڈرون حملے بند کرنے سے انکار کر دیا۔ اور وفد نے کہا کہ ملا اختر منصور پر حملہ کابل میں کاروائی کا ردعمل تھا۔

Drone Attack

Drone Attack

طالبان تشدد کا راستہ ترک کرنے پر تیا ر نہیں۔ بھارت کو ترجیح دینے کا تاثر درست نہیں۔ پاکستان اب بھی دوست ملک ہے۔ یہ سب باتیں درست نہیں۔ جہاں تک ڈو مور کا تعلق ہے تو ذرائع کہتے ہیں کہ کب تک پاکستان امریکا کے کہنے پر کاروائیاں کرتا رہے گا۔امریکا افغانستان میں رکنے کے لیے بہانے ٹھونڈ رہا ہے اسی لیے ملا اختر منصور کو قتل کیا۔بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے پولیس مین بنا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے خلاف بھارت کو شہ مل رہی ہے ۔جس کا ثبوت کلبھوشن بھارتی جاسوس کے بیان ہیں۔امریکا پاکستان کا کبھی بھی دوست نہیں رہا ہے۔جب بھی اُس کا مطلب نکل جاتا ہے پاکستان کو تنہا چھوڑ جاتا ہے ۔ جیسے افغانستان سے روس کی پسپائی کے وقت کیا تھا۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ امریکا دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے۔ وہ اس وقت تکبر میں مبتلا ہے۔ وہ روس کی شکست کے بعد اپنے اعلان کردہ نیو ورلڈ آڈر پر عمل کر رہا ہے۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اس نے صلیبی جنگ شروع کی ہوئی ہے جس کا اعلان جارج بش نے اپنی زبان سے کیا تھا۔

اگر معاملے کو گہرائی سے سمجھنے کی اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں عیسائیوں کو شکست دے کر موجودہ مسلمان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ پھر فلسفی شاعر علامہ اقبال کی سوچ کے مطابق” میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے۔ شمشیر سنا اوّل طائوس و رباب آخر” جب مسلمان اس مرض میں مبتلا ہوئے اور مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو یہ سارے علاقے عیسائیوں کے قبضے میں واپس چلے گئے۔ پھر جمہوری دور کی وجہ سے علاقے تو مسلمانوں کے پاس رہے مگر وہ اپنے چیلے اس مسلمان علاقوںمیں پیدا کر گئے اس چیلوں کی وجہ سے ابھی تک مسلمان ملکوں پر زور عیسائیوں کا جلتا ہے۔جب آخری بار ١٩٢٤ء میں سلطنت عثمانیہ کو شکست دے اس کے حصے بخرے کر کے خلافت عثمانیہ کو پچاس سے زائد چھوٹے چھوٹے راجوڑوں میں تقسیم کر دیا تھا جو موجودہ مسلمان ملکوں کی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔

اس کاروائی کے دوران امریکا کے اُس وقت کے وزیر دفاع نے پریس کانفرنس میں ایک مسلم دشمن تاریخی اعلان کیا تھا کہ دنیا میں دوبارہ خلافت کو قائم نہیں ہونے دیں گے یعنی سیاسی اسلامی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے۔ امریکا اُس وقت سے اب تک اُسی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا میں افراتفری پھیلانا، ان کے وسائل پر قبضہ کرنا، ان کو ذہنی غلام بنا کر رکھنا، ان کی حکومتوں کو مفلوج بنا کر رکھنا،ان کو حقیقی ترقی نہ کرنے دینا،ان کے ملکوں میں دہشتگردی کو فروغ دینا، مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑانا، القاعدہ،تحریک طالبان اور دائش جیسی تنظیمیںبنا کر اسلام کے پر امن دین کو انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنا۔ ان حالات میں کہیں مسلمان اپنی مرضی کی جمہوری حکومت قائم کریں تو فوجی حکمرانوں کے ذریعے انہیں ختم کر کے ڈکٹیٹروں کے ہاتھ میں حکومتیںدے دینا۔صاحبو! ہم نے مسلم قوم کے سامنے حالات حاضرہ پیش کر دیے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

اس حالات میں ہی ہم نے راستہ نکالنا ہے۔ ہم امریکا کے ساتھ کھلی جنگ نہیں کر سکتے۔ اس سے کھلی د شمنی بھی نہیں کر سکتے۔حالات کچھ اس طرح ہیں کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔اس نے مسلمان ہمسایوں کو ہمارا دشمن بنا دیا ہے۔اسلامی دنیا میں بھی بھارت نے دوستی قائم کر لی ہے۔ ایٹمی طاقت بن جانے سے امریکا بھی پاکستان کو گریٹ گیم کے تحت ختم کرنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ اس کے متعلق ہمارے سابقہ سپہ سالار نے اپنے دور میں اوباما کو چالیس صفحوں کا شکائیتی خط تحریر کیا تھا کہ امریکا پاکستان میں افراتفری پھیلا کر اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ یا ان کو بین الاقوامی اختیار میں دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صاحبو! اس وقت پاکستان کی مثال کبوتر اور بلی جیسی ہے۔اگر پاکستان نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں تو بلی اسے آسانی سے کھا جائے گی۔ کیوںنا کبوتر جان بچانے کے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور حالات کا مقابلہ کرے۔

ایسے موقعہ پر پاکستان کو اللہ پربھروصہ کر کے اللہ سے اجتماعی طور پر بحثیت قوم اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے۔ اور اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔ہمت کر کے اعلان کر دینا چاہیے کہ اگر ہمیں زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاتا تو پھر کسی کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں۔ اپنی ایٹمی اور میزائل صلاحیت کو کھلے عام وسعت دینا چاہیے ۔ایٹمی طاقت کسی ملک کے باپ کی جاگیر نہیں۔ کیا ایسا کرنے سے پاکستان کو کوئی کھا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ جب تک اللہ نہ چاہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ انشا اللہ پاکستان قائم رہے گا اور مسلمان دنیا کی سرپرستی بھی کرے گا۔ امریکی وعدہ خلافیوں،توتاچشمیوں،کام نکل جانے کے بعد اکیلا چھوڑ دینے ،بار بار ڈو مور کے حکم سے نکلنے اور امریکا سے جان چھڑانے کا بہترین موقعہ ہے۔ اللہ پاکستان کا محافظ ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان