ویلنٹائن ڈے اور ہمارا معاشرہ

Valentine Day

Valentine Day

تحریر : جنید رضا، کراچی
ویلنٹائن ڈے جو ملک پاکستان سمیت ساری دنیا میں منایا جاتا ہے، اسے یوں کہنا چاہئیے کہ ”دیوانوں کا دن” اس کی ابتدا کس طرح ہوئی اس ضمن میںکافی روایات ہیں ،مگر معتبر روایت Encylopedia Britanni میں کچھ اس طرح رقم کی ہوئی ہے، کہ اس شیطانی دن کا تعلق ہر گز ہر گز ”Saint Valentine”سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ مشرکانہ تہوار ہے، جو قدیم رومیوں کے دیوتا Lupercaliaکا تہوار تھا۔جو ”Juno Februata”کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔ اس دن تمام لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے تھے اور تمام مرد اس برتن سے ایک پرچی نکالتے جاتے ، جس لڑکی کا قرعہ جس مرد کے ہاتھ آتا وہ لڑکی تہوار کے اختتام تک اس مرد کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی ساتھی بن جاتی۔ المیہ یہ کہ یہ دونوں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے اور سارا سال اس شیطانی فعل پر فخر کیا کرتے تھے۔

روم میں جب عیسائیت کو فروغ ملا تو یہ شیطانی فعل ختم کرنے کے بجا اس کو مزید فروغ دیا، تف ہے کہ ہماری بھولی بھالی قوم ان کی تقلید کر رہی ہیں ۔ اور اپنی دینی، معاشرتی و اخلاقی اقدار اور شرم و حیا اور غیرت کو پس پشت ڈال کر اس غیر شرعی، غیر اخلاقی ، اور فحش شیطانی فعل و رسم کو بڑی با قاعدگی سے منا رہے ہیں۔اور چونکہ انہوں نے اس غیر دینی اورغیر اخلاقی رسم کو مرسّم کرنے کے لئے ماہ فروری کی 14 تاریخ کا انتخاب فرمایاتھا،اور اب ہمارا معاشرہ بھی انہی کے طرز عمل کی تقلید کرتے ہوئے ہرسال فروری کی 14 تاریخ کو امریکہ ،کینیڈا، برطانیہ، میکسیکو ، فرانس اور آسٹریلیاکی طرح دو محبوبوں کے مابین ٹافیاں ،پھول اور کارڈ زوغیرہ کا تبادلہ،ہرجائز وناجائز فعل کرواکراس دن کو اسلام کے ساتھ متّصل کرتا ہے۔حالانکہ ایسے ایّاموں کا اسلام سے نہ کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اسلام ان کا حامی ہیں۔

بلکہ ہمارا مذہب تو خود امن و محبت کا پیغامبر ہے، جس کااظہار ہماری مذہبی و معاشرتی ثقافت و روایات سے ہوتا رہتا ہے، جن میں ماہ رمضان، عیدین اور دیگر کئی ایسے مواقع ہیں جن میں باہمی و اجتمائی محبت صاف جھلکتی ہے ،جو ہماری مذہبی و معاشرتی روایات کی بہترین مثال قائم کرتی ہیں ،یہ بات درست ہے کہ اچھی روایات جہاں سے بھی ملیں انہیں اپنایا جاسکتا ہے اور فیض اٹھایا جا سکتا ہے لیکن جس معاشرے کی اپنی روایات ہی ایسی ہوں کہ جو تمام دنیا کے لئے قابل عمل اور قابل تقلید ہوں تو اس قوم کے افراد کا ایسی روایات کی تقلید کرنا بے معنی ہے۔

یہ اسلامی روایات کا ہی تو فخر ہے کہ جن کی تقلید نے تہذیب و ثقافت سے بالکل نابلد اقوام کو آج کس مقام پر پہنچا دیا ہے، اور انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی بے معنی روایات پروان چڑھتی جارہی ہیں جن کا ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہر طرح سے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ لیکن ان کی تقلید میں ہمارا مسلم معاشرہ صف اوّل نظرآتا ہیں۔

آج ہم اپنے اسلامی شعار کوہی بھول چکے ہیںاور غیر مسلموں کے رواج کو اپنا لیا ہے۔خدارا اپنی اصلیت پہچانو،ہم مسلمان ہیں ہمیں ان سب چیزوں سے دور رہنا چاہی ہیں جو ہمارے لئے اور ہمارے دین کے لئے مضر ہو۔ اﷲ رب العزت سے دعاگوں ہو ،کہ اﷲتعالی ہمیںاور ہمارے معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق مرمت فرمائیں۔آمین

Junaid Raza

Junaid Raza

تحریر : جنید رضا، کراچی
03102238341
03032972058
junaid53156@gmail.com