ویانا میں مسئلہ کشمیر، مذہبی انتہاپسندی، ریاستی دہشت گردی، انسانی حقوق اور ایٹمی جنگ کے خطرات پر کانفرنس کا انعقاد

Kashmir Culture Center-Conference Vienna

Kashmir Culture Center-Conference Vienna

ویانا (اکرم باجوہ) مورخہ 21 اپریل کو آسٹریا کے دارلحکومت ویانا کے یورپی یونین ہاوس میں مسئلہ کشمیر کے پر امن حل لے لیے کشمیر کلچر سنٹر ویانا کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔کانفرنس کے مہمان خصوصی سوشلسٹ پارٹی آسٹریا کے ممبر یورپین پارلیمنٹ ڈاکٹر جوزف واییڈن ہولذرتھے ۔ان کے علاوہ سوشلسٹ پارٹی کی ممبر آسٹرین پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کمیٹی کی ممبر محترمہ نورتن یلماز،حکمران سوشلسٹ پارٹی کے ممبر اسمبلی اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ جناب پیٹر فلوریان شٹز ،گرین پارٹی کی رکن پارلیمنٹ انسانی حقوق کی چیرپرسن محترمہ اَلف کورون،گرین پارٹی کی طرف سے فارن افیرزکی ترجمان محترمہ کلاوڈیاسٹاڈلر،شامی خواتین کے حقوق کی نمائندہ اورسٹیفن ڈی مسٹوراگروپ کی نمائندہ محترمہ ماجدولین حسن نے بھی شرکت کی۔

اس کے علاوہ کشمیر اور انسانی حقوق سے متعلق متعد این جی اوزنے بھی کانفرنس میں شرکت کی ۔کشمیر کے مختلف حصوں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مقررین نے تنازعہ کشمیر کی بنیادی وجوہات ،مسئلہ کشمیر کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادیں ،کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لڑی جانے والی 3 جنگوں ،معاہدہ تاشقند،شملہ اور لاہور ڈیکلریشن پر بھی روشنی ڈالی ۔کانفرنس کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے یورپین یونین ہاوس کے نمائندہ جناب تھامس ویبرنے کانفرنس کی کامیابی اور مسئلہ کے پُرامن حل کے لیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔مقررین نے پاک چائنا اقتصادی راہداری اور کشمیر پر اس کے فوائد و نقصانات کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ۔گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اور آل پارٹیزنیشنل الائنس کے سابق چیرمین جناب وجاہت حسن خان اور یورپین فاونڈیشن فار ساوتھ ایشیاء سٹڈیز کے ڈائریکٹرجنید قریشی نے موجودہ شکل میں پاک چائنا اقتصادی راہداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ راہداری اگرچہ کشمیر سے شروع ہوتی ہے اور تقریباََ800کلومیٹر تک گلگت بلتستان سے گزرتی ہے ،مگر نہ تو گلگت بلتستان اور نہ ہی کشمیر کو اس سے کوئی اقتصادی یا معاشی فوائد حاصل ہونگے ،کیونکہ گلگت بلتستان میں نہ تو کوئی صنعتی زون اور نہ ہی کوئی پاور پروجیکٹ لگایا جا رہا ہے۔

جموں کشمیر نیشنل پارٹی کے نمائندہ جہانگیر میر نے پاکستانی اور انڈین کشمیر میں سماجی ،سیاسی ، مذہبی ،ثقافتی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر روشنی ڈالی ۔مقررین نے کشمیر میں جاری تحریک آزادی ،مسلح جدوجہد کے فوائد و نقصانات ،مذہبی انتہاپسندی اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے خلاف ورزیوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی پرزو ر الفاظ میں مذمت کی ۔سری نگر سے تعلق رکھنے والے جموں کشمیر ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی یورپ کے صدر جناب محمد لطیف بٹ نے جہاں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کڑی مخالفت کی وہاں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہندوستان کو بھی اَڑے ہاتھوں لیا ۔اُنہوں نے متحدہ جہاد کونسل کے کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ۔اُنہوں نے کشمیر میں جاری تحریک میں شامل نہتے نوجوانوں کی اَرمڈشپیشل فورسز پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نہتے مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال اور کشمیری نوجوانوں کو بطور انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

اُنہوں نے مظاہروں میں شامل پُرامن کشمیری عورتوں ،بچوں،اور نوجوانوں کی شہادتوں کی پرزور مذمت کی ۔ویانا سنٹر فارڈس اَرم منٹ اور نان پرو لیفریشن کی ریسرچ فیلو محترمہ ستارہ نور نے ساوتھ ایشیا ء میں ممکنہ ایٹمی جنگ اور اس کے اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ کم و بیش تمام مقررین نے اس بات کا اظہار کیا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی متعدد قرار دادوں کے باوجود اگر گذشتہ 70سالوں میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا تو اگلے 100 سال میں بھی ان قرار دادوں کے تحت اس مسئلے کے حل کی کوئی اُمید نہیں ہے ۔اسی طرح ہندوستان اور پاکستان ،تاشقند ،شملہ اور لاہور معاہدوں کے باوجود بھی کسی پر امن حل پر نہیں پہنچ سکے بلکہ گذشتہ ستمبر میں دونوں ملک ایٹمی جنگ کے لیے بلکل تیار تھے ،لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کی سرگرم مداخلت کے بعد ایٹمی جنگ کے خطرات کچھ کم ہوئے۔

امریکی اور مغربی ممالک کے تھنک ٹینک کے مطابق اس طرح کی ایٹمی جنگ ہو جاتی تو جنگ کے پہلے ہی روز 21 کروڑانسانوں نے لقمہ اجل بن جانا تھا ۔مقررین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جنگ اگر چہ کشمیر کی وجہ سے ہونے جا رہی تھی لیکن دونوں ممالک نے ،دہلی ،ممبی،کلکتہ،کراچی ،اسلام آباد اور راولپنڈی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔مقررین نے آسٹرین پارلیمنٹ اور بالحصوص یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ چونکہ وہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جنگ کی تباہ کاریوں سے بخوبی اگاہ ہیں اور مسائل کے پُر امن حل کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں تو وہ اَگے آئیں اور غیر جانبدار ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کو پُرامن طور پر کشمیر سے اپنی افواج نکالنے پر اَمادہ کریں تمام مقررین نے متفقہ طور پر اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے اور ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کی اکثیریت جو بھی فیصلہ کرئے گی وہ ریاست کے تمام شہری بلا لحاظ مذہب ،قومیت،علاق بسرو چشم قبول کریں گے۔