ویزوں میں سختی سے پیراگلائیڈنگ زوال کا شکار

Paragliding

Paragliding

چترال (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کا دور افتادہ پہاڑی ضلع چترال پیراگلائیڈنگ کے لیے ملک کا سب سے موزوں علاقہ سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں ہر سال خصوصی طور پر غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے رہے ہیں۔

تاہم حالیہ دنوں میں حکومت کی طرف سے غیر ملکی سیاحوں کو ویزے جاری کرنے میں سختیوں کی وجہ سے یہ کھیل زوال کا شکار ہے، جس کی وجہ سے علاقے کی سیاحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
پیراگلائیڈنگ غیر ملکی سیاحوں کا ہمیشہ سے ایک مقبول کھیل رہا ہے۔

اس کھیل میں عام طور پر پہاڑ کی چھوٹی یا بلند مقام سے ایک بڑے پیراشوٹ کے ذریعے سے پرواز کی جاتی ہے۔ یہ پرواز اکیلے بھی ہوتی ہے اور دو افراد بھی کر سکتے ہیں۔ پرواز کرنے والے کو عام طور پر پائلٹ کہا جاتا ہے۔

بلند پہاڑی چوٹیوں پر مشتمل ضلع چترال پیراگلائیڈنگ کے لیے ملک کا روایتی طور پر موزوں مقام سمجھا جاتا ہے بلکہ غیر ملکی سیاح چترال کو پیراگلائیڈنگ کی جنت بھی کہتے رہے ہیں۔

چترال میں پیراگلائیڈنگ کے فروغ کے لیے مقامی طور پر ایک کلب بھی قائم کیا گیا ہے جو ہندوکش ایسوسی ایشن فار پیراگلائیڈنگ کے نام سے مقبول ہے۔

یہ کلب چترال سے تعلق رکھنے والے پاک فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ شہزادہ سراج الملک نے قائم کیا تھا۔

اس کلب کے صدر شہزادہ فرہاد عزیز کا کہنا ہے کہ پہلے چترال میں غیر ملکی پائلٹ پہاڑی کی چوٹیوں سے پرواز کرنے کے لیے بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں کچھ مقامی لوگوں میں بھی شوق پیدا ہوا اور اس طرح 2007 میں ضلع کی سطح پر پیراگلائیڈنگ کے ایک کلب کی بنیاد رکھی گئی۔

بلند پہاڑی چوٹیوں پر مشتمل ضلع چترال پیراگلائیڈنگ کے لیے ملک کا روایتی طور پر موزوں مقام سمجھا جاتا ہے یہ کلب نجی نوعیت کا ہے جسے حکومت کی کوئی سرپرستی حاصل نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کلب سے سینکڑوں غیر ملکی سیاح منسلک ہیں جو مختلف اوقات میں چترال آ کر پرواز کرتے رہے ہیں اور جس سے کلب کو اچھا خاصا منافع بھی ہوتا رہا ہے۔

شہزادہ فرہاد نے دعویٰ کیا کہ پیراگلائیڈنگ میں دنیا کا سب سے اونچا اور لمبا ریکارڈ بھی چترال میں ہی بنا ہے، جو امریکی پائلٹوں نے بنائے ہیں۔ تاہم اب کچھ عرصہ سے یہ کلب غیر فعال ہے جس سے پیراگلائیڈنگ بھی زوال کا شکار نظر آتی ہے۔

شہزادہ فرہاد کے مطابق حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کو ویزے جاری کرنے میں سختیاں کی جا رہی ہیں جس سے نہ صرف یہ کھیل ختم ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس سے علاقے کی سیاحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

’ہر سال ہمارے ساتھ سینکڑوں غیر ملکی سیاح رابطہ کرتے ہیں اور وہ بخوشی چترال آنا چاہتے ہیں لیکن بدقمستی سے ان کو ویزے نہیں ملتے جس سے وہ یہاں آنے سے قاصر ہیں۔ اگر کوئی ایک دو پائلٹ آ بھی جاتے ہیں تو ان سے اتنی پوچھ گچھ ہوتی ہے کہ وہ پھر یہاں کا رخ نہیں کرتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں حکومت کی طرف سے اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں غیر ملکی سیاح بلا روک ٹوک کے آسکتے ہیں، لیکن پھر بھی سیاحوں کو ویزوں کے اجراء میں مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب تک حکومت کا یہ اعلان برائے نام ہی ثابت ہوا ہے جس کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ چترال میں ہر سال کئی مقامی تہواروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں غیر ملکی سیاح خصوصی طور پر دلچپسی ظاہر کرتے رہے ہیں۔