کس منہ سے ووٹ مانگتے ہو

AJK

AJK

تحریر: اصغر حیات
میں جب آزادکشمیر کی ٹوٹی پھوٹی کچی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی جیپوں کو دیکھتا ہوں تو جانفشانی کرنیوالے دڑائیوروں کو داد دینے کا دل کرتا ہے، اور ان جیپوں پر سفر کرنیوالے مسافروں پر رشک آنے لگتا ہے، جب یہ جیپیں کسی موڑ سے سلپ ہوکر پیچھے کی طرف چل پڑتی ہیں تو اچھے خاصے صحت مند انسان کی اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے، ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر کی 70 سے 80 فیصد سڑکیں ابھی تک کچی ہیں، اور یہ سڑکیں دور دراز علاقوں میں آمد ورفت کا واحد ذریعہ ہیں۔

ہنگامی حالت میں انہی جیپوں کے ذریعے مریضوں کو شہر منتقل کیا جاتا ہے، جن سڑکوں پر اچھے خاصے ہٹے کٹے مسافروں کا کچھومبر بن جائے ان پر مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی، یہ کو ئی ان سے ہی پوچھے ۔سیاستدانوں اور لیڈران نے شاید یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ حلقے کے عوام کیساتھ سڑک سڑک کھیلنا ہے ، 5کلو میٹر یا 10کلو میٹر کچی سٹر ک کا اعلان تویہ چٹکی بجا کر کردیتے ہیں ، پھر انتخابات کے بعد محترم ایم ایل اے صاحب ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ، طویلتگ و دو اور جدوجہد کے بعد اگر وہ قابو آجائیں ،تو سکیمیں اور بجٹ نہ ہونے کے بہانے تیار ہوتے ہیں، بھر پوراصراراور ڈھیٹ ہوکر پیچھے پڑے رہنے کی صورت میں کہیں لمبے پراسس کے بعد آدھا کلو میٹر یا ایک 1 کلو میٹر کچی سٹر ک کا بجٹ منظور ہوتا ہے۔

پھر اس سے بھی طویل پراسس کے بعد کہیں جاکر بجٹ ریلیز ہوتا ہے اور سٹرک کی تعمیر کا کام شروع ہوتا ہے، اور اس دوران 5 سال کا عرصہ گزر جاتا ہے، پھر نیا اعلان نیا طریقہ واردات، یہ تو ہوئی کچی سڑک کی کہانی ، پکی سڑک کی تعمیر تک تو نسلیں جوان ہوجاتی ہیں ،اور وہ بھی اس طرح پکی ہوتی ہے کہ پچیس پچیس سال جس سڑک کو پکا ہونے میں لگتے ہیں ، پانچ سال میں وہ اکھڑ جاتی ہے۔

Ajk Elections

Ajk Elections

بجلی کی یہ صورتحال ہے کہ ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے ، یہ دورانیہ بغیر کسی وجہ کے بڑھ بھی سکتا ہے ، یہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ ”بجلی جانے کی ترتیب ہے لیکن آنے کی ترتیب نہیں” ہاں البتہ بارش ہو جائے تو محکمے کی خطے پر خاص مہربانی ہوتی ہے ، بارش کی پہلی بوند جونہی زمین پر گرتی ہے تو بجلی دو تین روز کے لئے غائب ، کبھی ایسے ہوتا ہے کہ ہوا تھوڑی تیز چل جائے تو بھی یہی صورتحال ہوتی ہے ، لیکن بل بھیجنے میں اس محکمے کے افسران اس قدر دوربینی رکھتے ہیں کہ بغیر میٹر چک کیے بل بھیج سکتے ہیں۔

نظام تعلیم توجیسے ٹھیکے پر چل رہا ہے ، میٹرک کا گیزٹ اٹھا کر دیکھ لیں ، نتیجہ آپ کے سامنے ہے ، پاس ہونے والوں میں سے 70 فیصد سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن پاس ہوتے ہیں ، انفاسٹریکچر کی بات کریں تو زلزلے کو 11 سال ہوگئے آج بھی ہزاروں بچے سکول کی چھت سے محروم ہیں ، ہزاروں سکولوں میں آج بھی واش رومز نہیں ، لائبریریاں نہیں ،سیکٹروں کی تعداد میں بوگس سکولز ہیں مگر ایکشن لینے والا کوئی نہیں ، وزراء جو اس نظام میں ہزاروں کی تعداد میں سفارشی بھرتی کروا چکے ہیں اب سرکاری سکولوں کی نجکاری کا بیان دے رہے ہیں ، مظفرآباد، میرپور، کوٹلی ،اور راولاکوٹ یونیورسٹیو ں سے فارغ ہونیوالے ہزاروں نوجوان آج مایوس ہیں ان کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن جابز نہیں ، حکومت اور قائدین کے پاس ان کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں ، ان کی جاب اور ان کی انٹرن شپ کے لئے کوئی پلان نہیں ،کوئی سوچ نہیں ، حکومتیں یہ تو کرسکتی ہیں کہ پسماندہ علاقے کے طلباء کی فیسوں میں اضافے کو روکیں، اگر حکومت نہیں کرتی تو اپوزیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آواز اٹھا ئے ، لیکن یہاں یوں لگتا ہے کہ سب گول مال ہے۔

Election

Election

تحریک آزادی کا بیس کیمپ حکمرانوں اور لیڈران کا عیش کیمپ بن چکا ہے ، وزراء کی بٹالین ہے تو مشیروں کی پوری فوج، لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے بات کرسکے ،کیونکہ تقرری کا معیار کچھ اور ہے جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے وہ اتنے ہی برے عہدے پر براجمان ہے ، مسئلہ کشمیر ان کے لئے صرف بیرون ممالک سفر کرنے اور عیش و عشرت کا ذریعہ بن کررہ گیاہے ،کشمیر کے نام پرلیڈران اور ان کے فرزندوں نے ان ان کیسینو کے مزے لوٹے شاید سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے نے بھی نہ لوٹے ہوں ۔
ایک بار پھر انتخابات کا دور دورہ ہے ، لیڈران ایک بار پھر چرب زبانی کے ذریعے ووٹروں کو بیوقوف بنانے کے لئے میدان میں ہیں ، وہ وہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ انسان کہتا ہے کہ یہ مسیحا پہلے کہاں تھا؟شاید لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس میدان میں نئے ہیں ، باقی سب پرانے ہیں ، اگر کو ئی ماضی میں خود رکن اسمبلی نہ بھی رہا ہو تو اس کا بھائی ، بہن ، کزن ،چچا ، ماما کوئی ضرور رہا ہوگا،سب شکلیں بدل بدل کر ،جماعتیں بدل بد ل کراقتدار کا مزہ لوٹ چکے ہیں،لیکن اس خطے کے لئے کچھ نہ کرسکے ،یہ خطہ جسے جنت ارضی کہاجا تا ہے۔

صرف سیاحت کے فروغ سے ہی خوشحال ہوسکتا ہے ، لیکن کسی لیڈر کا اتنا وژن کہاں ؟ مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی سے درجنوں چھوٹے ڈیم بنا ئے جاسکتے ہیں ، آزادکشمیر کے آندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے ،لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ لیڈران اور وزراء ذاتی کمیشن کے لئے ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، نجی شعبے کے تعاون سے نوجوانوں کے لئے بے شمار یوتھ سکلز پروگرام شروع کیے جاسکتے ہیں ،لیکن کون کرے اور کیوں کرے ؟ جب انہیں پتہ ہے کہ 1 یا 2 کلو میٹر کچی سڑک سے کام چل سکتا ہے تو انہیں کیا ضرورت ہے بڑے اقدامات کی ،جب تک کوئی ووٹر یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں کرے گا کہ 1 یا 2 کلو میٹر کچی سٹر ک تعمیر کروا کے” کس منہ سے ووٹ مانگنے آئے ہو” یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

Asghar Hayat

Asghar Hayat

تحریر: اصغر حیات