ووٹ کی عزت، ووٹر اور امیدوار کا معیار

Vote

Vote

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر

بہت دنوں سے ایک ہی بات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو ،ووٹ کو عزت دو مگر کبھی ووٹر کو عزت دینے کی کسی نے بھی کبھی بات نہیں کی۔ ووٹ کی عزت تب ہی ہو سکتی ہے جب ووٹر کو عزت ملے گی جب ووٹ کی عزت کا واویلا کرنے والے ووٹر کو بھی وہی مقام دیں گے جو وہ اپنے لئے چاہتے ہیں خو د اگر ان کو زکام ہو جائے تو طبی معائنے کے لئے ولائت چلے جاتے ہیں اور ووٹر یہاں کے مقامی اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتا بلک بلک کر جان دے رہا ہے ،ووٹ کی عزت کے خواہشمندوں کے بچے بیرون ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بیچارے ووٹر کا بچہ یہاں مکمل طور پر سہولیات سے محروم سکولوں میں ایک کمرے میں ۔۔۔ جس ایک کمرے میں مرغیوں کی طرح 130سے150طلبہ ہوتے ہیں ایسے کلاس روم میں کیا ان راہبران قوم کی اولاد بیٹھ کر پڑھ سکتی ہے یا وہ لیڈران خود گوارا کریں گے؟سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ ووٹ کی عزت کی بجائے ووٹر کی عزت کو اہمیت دو اس کے بعد ووٹ کی عزت خود بخود بحال ہو جائے گی ۔ جو سیوریج ملا پانی ووٹر پینے پر مجبور ہے کیا جناب نے اس پانی کے دو گھونٹ بھی اپنے حلق میں اتارنے کی کبھی ہمت کی ہے ؟نہیں کی نا ؟ بلکہ جناب تو ملٹی نیشنل کمپنیز کا منرل واٹر پیتے ہیں اور وہ بھی آدھی درجن کے قریب ڈاکٹر ز پہلے چیک کرتے ہیں پھر کہیں جا کر وہ آپ کے حلقوم سے نیچے اترتا ہے۔

میں یہاں اپنے شہر شیخوپورہ کی ہی بات کر لیتا ہوں جہاں کی آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے مگر شہر میں ہائی سکول وہی ہیں جو آج سے چالیس سال پہلے تھے کبھی حکومت کی نظر اس جانب نہیں ہوئی کہ چند نئے ہائی سکول ہی بنا دیئے جائیں جس ایک کمرے میں پچیس سے تیس طلبہ بیٹھنے چاہئیں وہاں سوا سو سے ڈیڑھ سے طلبہ بھیڑ بکریوں کے باڑے جیسے ماحول میں بیٹھنے پر مجبور ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری سکولوں میں مکمل پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالا مال اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں مگر وہ استاد بیچارہ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کو کیا خاک لیکچر دے گا میرے خیال کے مطابق ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ پینتیس طلبہ سے زیادہ نہیں بیٹھانے چاہئیں اس طرح طلبہ بھی مکمل یکسوئی سے استاد کا لیکچر سن سکیں گے اور استاد کو بھی لیکچر دینے میں آسانی ہو گی اور اس طرح نتائج بھی بہترین آئیں گے مگر اس طرف وہ لوگ کیسے توجہ دیں جن کی اپنی اولادیں یورپ میں زیر تعلیم ہوں ۔تو بات ہو رہی تھی ووٹ کی عزت کی ووٹ کو عزت اس وقت ملے گی جب ووٹر کو احترام ملے گا اسکو وہی تعلیم کی سہولیات ملیں گی جو حکمرانوں کی اولاد کو حاصل ہیں ، انکو صحت کی تمام وہی آسانیاں ہوں جو حکمرانوں کو میسر ہیں ، انکے پینے کا وہی پانی ہو گا جو حکمران خود پیتے ہیں ،انکے لئے روزگار اور کاروبار کے وہی مواقع میسر ہوں گے جو صاحبان مسند کو حاصل ہیں ، جب تک یہ سب کچھ آپ لوگ ووٹر کو بہم نہیں پہنچائیں گے تب تک آپ کی زبان سے ووٹ کو عزت دو والے الفاظ کچھ جچتے نہیں جناب ۔ووٹر کو آپ لوگ تعلیمی سہولیات صرف اس وجہ سے بہم نہیں پہنچا رہے کہ کہیں ان کا شعور مائل بہ پرواز نہ ہو جائے اسے کھوٹے کھرے کی پہچان نہ ہو جائے وہ یہ نہ جان لے کہ جو ہمارے پاس ووٹ مانگنے آیا ہے کہیں وہ کسی قبضہ گروپ کا سرغنہ تو نہیں؟ کہیں اسکی گردن پر بے گناہوں کا خون تو نہیں ؟کہیں وہ عزتوں کا رکھوالا ہونے کی بجائے عزتوں کا لٹیرا تو نہیں ؟؟؟اس لئے بھی ووٹر کو اعلیٰ تعلیمی مواقعے میسر نہیں ہیں کہ اگر ووٹر یا اس کی نسلیں تعلیم سے بہرہ مند ہو گئے تو کل کو کہیں وہ اس ملک کی باگ ڈور ہی نہ سنبھال لیں ۔اور اگر انکو صحت کی سہولیات دے دیں گے تو پھر کس کے نام پر آپ دنیا سے بھیک مانگیں گے کبھی پولیو کے نام پہ، کبھی ٹی بی کے نام پہ ، کبھی ہیپا ٹائٹس کے نام پر ،حالانکہ جو بھیک آپ انکے علاج کے لئے مانگتے ہیں کل کو وہی قرض کی تلوار بن کر اسی عوام کے سر پر لٹک رہی ہوتی ہے۔

صاف پانی کے لئے کمیٹیاں تو بن رہی ہیں مگر ان کمیٹیوں میں کتنے کیمیکل ایگزامینر رکھے گئے ہیں ؟ان میں تو اپنے ہی چہیتوں کو نوازا گیا ہے جن میں خاص طور پر زعیم قادری کی فیملی کو نوازا گیا ہے ۔پھر یہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا جا رہا کہ ووٹ کو عزت ملنی چاہئے مگر ووٹر کو کبھی بھی سہولیات نہیںملنی چاہیئں یہ اسی طرح عیسیٰ کی بھیڑوں کی طرح رہیں جب چاہیں ان کو اپنے اختیار کی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ووٹ میلہ میں لے جایا جائے ان کو بریانی کا چارہ ڈال کر اپنے پیچھے ممیانے پر مجبور رکھا جائے اسی طرح دیتے ہیں نا آپ ووٹ کو عزت ؟ووٹ کو عزت تب ملے گی جب ووٹر کی کوئی اہلیت مقرر کی جائے گی میرے خیال کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے کی کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک مقرر کی جائے اگر ووٹر پڑھا لکھا ہو گا تو وہ اپنا نمائندہ بھی بہترین چن سکے گا پھر وہ یہ نہیں کرے گا کہ ایک بریانی کی پلیٹ کے عوض اپنا ووٹ کسی نا اہل کو دے کر ایوان اقتدار کی ٹکٹ تھما دے اگر وہ خود پڑھا لکھا ہو گا تو کسی چور ،کسی رسہ گیر ،کسی غاصب ، کسی لٹیرے کو اپنا لیڈر نہیں چنے گا ۔پھر وہ مکمل طور پر قانون ساز اسمبلی میں اسے ہی بھیجے گا جو ملک و ملت کے لئے بہتر قانون سازی کا فریضہ انجام دینے کا اہل ہو گا ،نا کہ وہ نالیاں گلیاں اور سیوریج کا کام کروا کر ایک بلدیاتی کونسلر کی مانند کا م کرتا پھرے ارے بابا یہ کام ایک ایم این اے یا ایم پی اے کے نہیں بلکہ یہ کام بلدیاتی کونسلرز کی ذمہ داری ہیں اور ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے کہ ایک ایم پی اے گلیوں میں پی سی ڈلوا کر اور نالیاں پکی کروا کر اس طرح سینہ تان کے چل رہا ہوتا ہے جیسے اس نے کسی نا ممکن کام کو ممکن کر دکھایا ہو اور پھر اسی گلی کی نکر پر اپنے نام کی افتتاحیہ تختی لگوانا نہیں بھولتا کہ یا درہے اس قوم کو کہ کس ممبر اسمبلی نے گلی میں پی سی ڈلوائی تھی واہ صاحبان عقل و خرد اور ہماری عوام بھی اسے اس کے اس فعل پر خوب داد تحسین دے رہی ہوتی ہے۔

جیسے اس ممبر صاحب نے یہ کام اپنی گرہ سے کروا کر عوام پہ کوئی احسان عظیم کیا ہو یہ عقل سے نا آشنا لوگ شائید یہ نہیں جانتے کہ جس رقم سے اس نے یہ کام کروائے ہیں دراصل وہ روپیہ ان ہی لوگوں کا ہے جو اسے بے تحاشہ دادیں دے رہے ہیں اسے ان کاموں پر اپنے نام کی تختی لگوانے کا کوئی حق نہیں بلکہ وہ تو اس نے اپنا فرض ادا کیا اپنے نام کی تختی وہ تب ہی لگوانے کا حقدار ہو سکتا ہے جب وہ یہ کام عوام کی فلاح کے لئے اپنی جیب سے کروائے ارے میری بھولی بھالی قوم کے لوگو اس ممبر صاحب نے تو اس کام میں سے کمایا ہے پھر آپ لوگ اسے کس بات پر داد دیتے ہو اسی لئے تو کہتا ہوں کہ ووٹ کا حق صرف پڑھے لکھے بندے کو ہونا چاہئے یہ کام کرنے سے دو فائدے ہونگے پہلا فائدہ یہ کہ پڑھا لکھا بندہ کسی اہل کو چنے گا جو ماں دھرتی کی اسمبلی میں بیٹھ کر سچ مچ مادر وطن کی خدمت کو اپنا فرض اولین سمجھے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لئے جب تعلیم کی شرط ہو گی تو ہر شخص میں طلب علم کی چاہت بڑھے گی ہر بندہ تعلیم کی طرف راغب ہو گا اسے پتہ ہو گا کہ اگر وہ میٹرک سے کم تعلیم کا حامل ہے تو اسے ووٹ کا حق نہیں ہے تب اس کی خواہش ہو گی کہ مجھے اپنا نمائندہ اگر چننا ہے تو کم از کم دس جماعتیں لازمی پڑھ لوں الیکشن کے موقع پر میٹرک کی سند ساتھ لانے کی شرط لازمی قرار دی جائے ۔اب رہ گئی تیسری بات کہ امیدوار کی اہلیت کیا ہو ؟ سب سے پہلی بات کہ وہ حقیقی تعلیم یافتہ ہو ،کسی ایسی یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ نہ ہو جس کا کہیں وجود ہی نہ ہو ،کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والا اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اہل نہ ہو ،امیدوار وہ ہو سکے جس کا کسی بھی بیرون ملک میں بینک اکائونٹ نہ ہو۔

ماں دھرتی کی نمائندگی صرف وہ کر سکے جس کے کسی بیرون ملک میں اثاثے تو کیا کاروبار بھی اپنی دھرتی سے باہر نہ ہو اس کے بچے عوام کے ہی بچوں کے ساتھ سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہوں کیونکہ اگر اسے عوامی نمائندہ بننا ہے تو عوام میں رہ کر عوام جیسے ماحول میں ہی وہ اور اس کی اولاد تربیت پائیں ،اسکو یوٹیلٹی بلز میں کوئی چھوٹ نہ ہو بلکہ ممبر منتخب ہونے کے بعد اپنے بلز وغیرہ اسمبلی کی تنخواہ سے ہی ادا کرے ۔ ایسے لوگوں سے جب اسمبلی وجود میں آئے گی تو ان کے دل میں عوام کا درد بھی ہو گا اور وہ عوام کی فلاح کے لئے بھی قانون سازی کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ جن لوگوں نے کبھی دھوپ کی تپش اپنے وجود پر جھیلی ہی نہ تو اس کو کسی کے بدن جھلسنے کا خاک احساس ہو گا جو لوگ ائر کنڈیشنڈ کمرے سے نکل کر ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں جا بیٹھیں اور وہاں سے نکلیں تو ائر کنڈیشنڈ دفتر میں جا کربراجمان ہو جائیں انکو دھوپ میں جھلسنے والوں کی کوفت سے مطلق آشنائی نہیں ہو گی یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اسمبلی میں جا کر بھی عوام کے دکھوں سے نابلد ہی رہے گا وہ تو اپنے آپ کو کوئی آسمانی مخلوق ہی سمجھے گا زمین پر بسنے والے اسے کیڑے مکوڑے ہی لگیں گے نا ؟تو پھر ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں ہونا چاہئے کہ عوام کی نمائندگی کر سکے ۔امیدوار بننے کا اہل ہی اسے گردانا جائے جس کی ڈگریاں الیکشن سے پہلے چیک ہوں تاکہ اسے اسمبلی میں پہنچنے سے پہلے ہی روکا جا سکے اسمبلی میں جانے کے بعد جعلی ڈگری کیس جب بنتا ہے تو اس سے بھی نا صرف ملک کی بلکہ اس ملک کی عوام کی بھی جگ ہنسائی ہوتی ہے کہ کیسا ملک ہے اور کیسی عوام ہے جنہیں اپنے نمائندے چننے کا بھی شعور نہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی بہت سے لوگوں نے ملک و قوم کو دھوکہ دیا اسمبلی کی نشستوں پر جا کر براجمان ہوئے اور پھر عدالت سے اسٹے لے کر کرسی اقتدار سے چمٹے رہے ایسے لوگوں کو سب سے پہلے قوم سے معافی مانگنی چاہئے تھی اور بعد میں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا صرف استعفیٰ دینا چاہئے تھا بلکہ اپنے آپ کو قانون کے حوالے بھی کرنا چاہئے تھا اگر وہ سچے اور مخلص طور پر دھرتی کے فرزند ہوتے انہیں اپنی دھرتی کی عزت ملحوظ ہوتی مگر وائے افسوس ان کو تو صرف اقتدار کی کرسی عزیز تھی آج ووٹ کی عزت کی بات کرنے والے اگر ایسے لوگوں کی سرکوبی کرتے خواہ وہ اقتداری پارٹی سے تھے یا اپوزیشن میں سے کیا یہ ووٹ کی تذلیل نہیں یا ووٹر کی توہین نہیں آپ نے ان لوگوں کے خلاف ایکشن نہ لے کر کیا ووٹ کی عزت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیا یا پھر اب بھی ووٹ کی عزت کا شور فقط اپنے اقتدار کے چھن جانے کی وجہ سے مچا رہے ہیں ؟اگر میری مندرجہ بالا گزارشات پر عمل ہو جائے تو آپ ملک میں ایک واضح تبدیلی خود محسوس کریں گے ۔چند گزارشات اور کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ جب تعلیم یافتہ ووٹر تعلیم یافتہ لوگوں کو چن کر اسمبلی میں بھیجیں تو کابینہ بھی کچھ اس طرح معرض وجود میں آنی چاہئے کہ وزارت قانون کا قلمدان کسی ماہر قانون ، وزارت تعلیم کسی ماہر تعلیم ،ثقافت کا وزیر کوئی ادیب شاعر یا فنکار ،لیبر منسٹر کوئی مزدور راہنما ،صحت کی وزارت کسی ماہر صحت ،غرض تمام وزارتوں کے قلمدان ان ہی لوگوں کو سونپے جائیں جو متعلقہ شعبے کے ماہرین ہوں اس کے بر عکس ایسا نہ ہو کہ انجینئر کے ہاتھ میں صحت کا قلمدان ہو ،کسی پروفیسر کو وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا ہو ا ہو تو پھر قانون سازی بھی لنگڑی لولی ہی ہو گی جناب ۔ خدارا آنے والے الیکشن سے پہلے پہلے ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کر کے ماں دھرتی کی ترقی و کامیابی کے لئے اپنا فریضہ انجام دے ہی ڈالیں۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail:mhbabar4@gmail.com