اک ذرا انتظار ڈاکٹر قدیر

Pakistani Nation

Pakistani Nation

تحریر: شاہ بانو میر
پاکستانی قوم بھوکی رہے گی دو وقت کی بجائے ایک وقت کھانا کھا لے گی مگر اپنے ہمسایہ مکار دشمن کی برتری کو تسلیم نہیں کرے گی آپ ایٹم بنانے کی تیاری شروع کریں اس سے ملتے جلتے الفاظ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب زوالفقار علی بھٹو شہید نے دبنگ انداز میں کہے تاریخ نے دیکھا اس زوالفقار علی بھٹو کو اس کی ذہانت کی بلند سوچ کی کیسی جاہلیت نے اس ملک میں سزا دی؟

پھر ان کے سامنے بیٹھے وطن عزیز کیلئے اپنی زبردست نوکری چھوڑ کر اس ملک کو دنیا میں بلند مقام دینے کیلئے وطن لوٹنے والے “” ڈاکٹر قدیر”” کو کیا ہی شاندار انعامات سے نواز کر جیتے جی انہیں مار دیا گیا؟ ڈاکٹر قدیر وہ حب الوطن سائنسدان کہ جن کی زندگی بیرون ملک ریسرچ کرتے اور سائنس کو کریدتے گزری بیرون ملک دیکھا کہ وہاں کا معیار زندگی کس قدر شاندار ہے اور پوری دنیا پر ان کا رعب کس وجہ سے ہے؟ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی ایک حساس حب الوطن انسان کی طرح ان کا دل بھی مچلنے لگا کہ وہ اپنی اہلیت کو وطن عزیز کیلئے استعمال کریں نہ کہ بیرون ملک ان اداروں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

Dr. Abdul Qadeer

Dr. Abdul Qadeer

بس اس سوچ کا ابھرنا تھا کہ انہیں پاکستان اور اس کیلئے ترقی کا اعلی معیار صرف اور صرف ایٹم بم کی صورت دکھائی دیا بھارت ایٹم بناکر خطہ پر اپنا اجارہ داری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا پاکستانی عوام انجانے خدشے سے کمزور ہوتی دکھاٰئی دے رہی تھی ایسے میں ڈاکٹر قدیر نے قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے عظیم سپوت ہونے کا ثبوت دیا اور اپنی خدمات اپنی تعلیم تجربہ ملک کیلئے وقف کر کے شبانہ روز محنت سے اور بے پناہ دعاوں سے بلاآخر بلوچستان میں چاغی کے مقام پر 1998 میں شدید بیرونی دباو میں بھی پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا۔

اس کے بعد بڑی بڑی انٹیلیجنس ایجنسیز حرکت میں آگئیں اور انہیں اس جرم کی پاداش میں سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا اس کے بعد کس طرح سے ایک اکیلے انسان کو ایٹمی ٹیکنالوجی غیر ذمہ داری سے کچھ ممالک کو فروخت کرنے کے حتمی ثبوت پیش کئے گئے اور ملک کے اس عظیم محسن کو تن تنہا ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔

غیور سوچ اور پرجوش پاکستانی کی موت اسی روز ہو گئی تھی جس روز اس سے جبرا سر عام بڑی طاقتوں کے کہنے پر معافی منگوائی گئی اور اس پے طرہ اس کو لائیو دکھایا گیا کہ دشمن کا سینہ ٹھنڈا ہو۔ دن رات جنون کی طرح کام کرنے والے کو آپ ایکدم اس کی زندگی سے عبارت تجربہ گاہ سے بیدخل کر دیں ہر ذمہ داری سے فارغ کر دیں قید تنہائی دے دیں تاکہ وہ آپکے انعمات کی ایسی ہولناک برسات میں ملول یہی سوچتے رہیں کہ میں حب الوطن کیوں تھا؟ آج وہ نئی نسل کیلئے تاریخی ہیرو نہیں بلکہ متناعہ ہستی ہیں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟

Cricket World Cup

Cricket World Cup

کرکٹ ورلڈ کپ کی تشہیری مہم میں ایک وقت ایسا آیا کہ حکومت وقت نے ٹیم تو دکھائی مگر سیاسی عناد میں عمران خان کو منہا کر دیا۔ یہی حساب ج ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی کیا گیا۔ وہ انسان جس نے آپکو اپنی زندگی کے بہترین سال دیے اگر وہ یہی کام بیرون ملک کسی ترقی یافتہ ملک کیلئے کرتا تو یقین جانئے آج ہم ان کے نام کے ساتھ اُس بڑے ملک کے لیبل کی وجہ سے ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ مگر افسوس صد افسوس اس سرزمین پاک نے ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنے والوں کو فیض کا یہ بے فیض پیام ہی دیا

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد کہ ایٹم بم بنانے کے بعد آپکی حیثیت بڑھ گئی اور آپ نے اس محسن کے ساتھ کیا کیا؟ آج ڈاکٹر صاحب کو کہیں فون کرنا ہو تو اپنا تعارف کروانا پڑتا ہے معمولی سے کام کیلئے انہیں بتانا پڑتا ہے کہ وہ اس ملک کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر ہیں؟۔

افسوس صد افسوس جس انسان کے گھر کے باہر ہر روز تشکر کے اظہار کیلئے پھولوں کے انبار لگنے چاہیے وہاں ہم شائد منتظر ہیں کہ کب یہ خبر چلے کہ پاکستان کے محسن اور مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اس دار فانی سے کوچ کر گئے؟ اور جیسے ہی یہ خبر نشر ہوگی سول سوسائٹی موم بتیاں لئے تازہ فیشل کروائے چہروں کے ساتھ لشک پشک کرتے بری کے سوٹوں میں دلہنیں بنی اور دولہا بھائی بنے مخصوص چہرے آپکو اپنی ٹی وی سکرینز پر دکھائی دیں گے وطن پرستی سے جن کا دور دور تک واسطہ نہیں وہی روایتی گھسے پٹے جملے اور وہی مدتوں سے ان ان جملوں کو سننے والی بے حس عوام ڈاکٹر صاحب کھوکھلا معاشرہ کھوکھلے لوگوں کے اس معاشرے میں آپ جیسے ہیرو ہمیشہ گمنام رکھے جاتے ہیں آپ کے سامنے آتے ہی ان کا عارضی رنگ اتر جاتا ہے۔

Money Race

Money Race

یہ عطا ہے اس وطن عظیم کی اپنے حب الوطن شہریوں کو ڈاکٹر صاحب جو قوم پیسے کی دوڑ میں حرام حلال میں تمیز بھول کر لباس بدلنے کو گھر بدلنے کو اعلیٰ معیار تسلیم کر لے . ذہنی پسماندگی پہلے سے بھی بد تر بدبو دار رہے اور ظاہری حالت پر معیار رہے وہاں آپ جیسے بیش قیمت ہیرے کی قدر کون کرے؟ جہان بازار ہی کھوٹے سکوں سے پیسہ ہونے کی وجہ سے بھر دیا گیا ہو؟ یہی وہ مخصوص پرانے گھاگ لوگ ہیں جو قوم سے پھر ہجوم بن گئے اور تو اور اپنے رب کوسچے تخلیق کار کو بھول جاٰتے ہیں الکتاب کو بھول جاتے ہیں۔

کہ وہ انہیں اسی گمراہی سے آگاہ کرتی ہے. آسمانی محسن کو بھولنے والے زمینی محسن کو کہاں یاد رکھیں گے؟ یاد رکھنا خدمات کا اعتراف کرنا انہیں خاص مرتبہ دینا ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کرنا تو اعلیٰ حکومتی اداروں کا کام ہے . جس کی تقلید پھر نیچے عوام کرتی ہے. ہمیں معاف کیجئے گا کہ ہمارے خمیر میں احسان فراموشی جیسی خامی بدرجہ اتم موجود ہے جس جس نے اس ملک کیلئے وقت دیا قربانی دی صحت دی جان دی کم و بیش ان سب کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا ہے جو آپ کے ساتھ ہے۔

معاف کر دیجئے گا یہ سوچ کر کہ ابھی جہالت کی حکمرانی ہے آپ کی عظیم خدمات وقت کا یہ مافیا تسلیم نہیں کرتا بیرونی دباؤ کے تحت لیکن انشاءاللہ تاریخ آپکو محفوظ کر چکی ہے بس اِک ذرا انتظار کہ میرے وطن اور ہم وطنو کو زندگی میں داد دینے کی تسلیم کرنے کی عادت کسی نے ڈالی ہی نہیں آپکو تسلیم ضرور کیا جائے گا مگر آپ کے بعد۔

ہم تو مٹ جائیں گے اے ارضِ وطن تجھ کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

Money Race

Money Race

تحریر: شاہ بانو میر