وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

Nawaz sharif  -  Kalsoom nawaz

Nawaz sharif – Kalsoom nawaz

تحریر : راشد علی
قانون کی حاکمیت کا اعلیٰ ترین تصور عملی طور پر جس حکمران نے دنیا کو دیا وہ رسالت مآب ۖ تھے آپ کا دور حقیقی معنوں میں قانون کی حکمرانی کا سنہرا دور تھا معاشرہ ظلم و بربریت سے محفوظ اورقانون کی حاکمیت یکساں سب پر لاگو تھی اقربہ پروری کا شائبہ تک نہ تھا بعدازاں خلفائِ راشدین نے قانون کی حکمرانی برقرار رکھی اقوام دنیا نے ریاست ہائے امور چلانے کی لیے ان سنہری ادوار سے رہنمائی حاصل کی اور اپنے معاشروں کو اعلیٰ اقدار سے آراستہ کیا تعلیم صحت اورانصاف کی یکساں فراوانی سے جہالت اورظلم کی بیخ کنی کی مگر افسوس ہمارے حکمران ان تمام صلاحیتوں سے محروم رہے جن سے قوموں کو ترقی کے راستے پر گامز ن کیا جاتا ہے تاریخ گواہ ہے کسی بھی قوم نے سڑکیں ،پل بنا کر ترقی کے زینے نہیں چڑھے یقینا یہ تعمیرات ملکی ترقی کا ثانوی جز ہوسکتی ہیں مگر حقیقی ترقی قطعاً نہیں ترقی معیار ی تعلیم ،انصاف اور صحت کی فراہمی سے پروان چڑھتی ہے مگر افسوس ہمارے ہاں علاج کے لیے انڈیا کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے چونکہ پاکستان میں دل کی سرجری کا کوئی جدید ہسپتال موجود نہیں ہے محترمہ کلثوم نواز لندن میں زیرعلاج ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جلد صحت یاب کرے۔

جناب میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ ارض پاک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر کوئی اعلیٰ معیار کا ہسپتال تعمیر نہ کرسکے جہاں غریب کا نہ سہی امراء کا علاج ممکن ہوسکتا دیہاتوں میں عطائی ڈاکٹر عامتہ الناس کی زندگیوں سے کھلواڑکررہے ہیں اورانہیں کوئی پوچھنے والانہیں ہے اس کی وجہ ہمارے ادارے ایسے ماہر ڈاکٹروں کو تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو اپنے مقدس پیشہ کا وقار بلند رکھیں صحت کا شعبہ کے بعد تعلیمی شعبہ ہے جس میں ہم واضح اصلاحات نہیں لاسکے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں تعلیم پر کم پیسہ خرچ کیا جا تا ہے غریب طبقہ تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہے پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ہے بلوچستان میں 50 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں پاکستان میں اس سال خیرات و صدقات میں قریباً 330ارب روپے جمع ہوئے انسانی ہمدردی کی بناء پر 260ارب روپے لوگوں نے انفرادی طور پر عطیہ کیے بیرون ممالک سے پاکستانیوں نے کار خیر کیلئے سالانہ 70ارب روپے وطن بھیجے انفرادی سطح پر غریبوں کی دادرسی کی گئی مگر حکومت کوئی واضح اقدام کرنے میں ناکام رہی آبادی میں اضافے کی بدولت تعلیمی اداروں کی تعداد ناکافی ہوتی جارہی ہے،جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس رفتار سے تعلیمی ادارے نہیں کھولے جارہے،جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی رفتار سے تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے تھے تاکہ پاکستان کے تعلیمی مسائل کو کم کیا جا سکتا جتنی فرسودہ اصلاحات متعارف کروائیں گئیں ہیں سب ناکام ہوگئیں ہیں سرکاری سکولوں سے والدین کا اعتماد اُٹھ چکاہے والدین بڑی تعداد میں نجی سکولوں کی طرف رخ کررہے ہیں اس کی بنیادی وجہ عمررسیدہ ٹیچرز ہیں جو نئے طرز تدریس سے اگاہ نہیں ہیں دوسری وجہ سرکاری اساتذہ کی پرائیوٹ اکیڈمیاں ہیں جہاں وہ بچوں سے مان مانی فیسیں وصول کرتے ہیں استاد ہو یا ڈاکٹر دنوں کو نجی ادارہ قائم کرنے پر پابندی ہونی چاہیے یہ اقدام شعبہ صحت اورتعلیم میں یقینا بہت مثبت تبدیلی لا سکتا ہے اوریہ اقدام کرنا ہوں گے اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ایک جائزہ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً دس کروڑ لوگ ناخواندہ ہیں جن میں سے تقریباً دو کروڑ چالیس لاکھ بچے ہیں جہاں تک سکولوں میں داخل بچوں کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان کے سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں کم از کم 2کروڑ80 لاکھ بچے زیرِ تعلیم ہیں اس تعلیمی بحران پر قابو پانے کے لیے ذمہ داری ،سرماکاری ،منصوبہ ،اعدادوشمار اورنصابی زبان پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی کیونکہ زبان کسی بھی قوم کی علمی و ادبی اور ثقافت کی سرمایہ دار ہوتی ہے زبان قوموں کی پہچان ہے مگر بد قسمتی سے ہم اپنی زبان کو وہ اہمیت نہیں دے سکے جو اس کا اصل حق ہے صدیوں اردو زبان نے بہت سے مسائل کا سامنا کیا مگر پاکستان آزاد ہونے کے بعد اسے قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہر ملک اور قوم اپنی زبان کو فروغ دینے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا مگر فروغ نہیں دیا اورہمارے حکمران کیسے فروغ دیتے ان کے اپنے بچے بیرون ممالک زیرتعلیم ہیں ان کا علاج معالجہ بیرون ملک ہے یہاں تو صرف وزارت اورآفسری کرنے آتے ہیں حکمرانی کے مزے لے کر دوبار بیرون ملک لوٹ جاتے ہیں وڈیروں اور حاکموں کے تمام مفادات پاکستان اورپاکستانی عوام سے ہوتے تو پاکستان کب کا ایشیاء کا ٹائیگر بن چکا ہوتا یہاں کبھی معصوم بچے بھوک افلاس سے نہ مرتے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر وں پر معصوم بچے کبھی نظر نہ آتے بلکہ یہ بچے سکولوں میں پروفیسر ،ڈاکٹر ،انجینئر اورسائنس دان بن رہے ہوتے،شاہرائوں پر ہاتھوں میں کشکول لیے ننھے پھول یوں بھیک نہ مانگ رہے ہوتے خیبر پختون خواہ کی حکومت نے پشاور میں بھیک مانگنے پرپابندی لگا دی ہے کوئی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو باور کرائے کہ جب بھوک ختم ہوجائے گی تو کشکول ازخود ٹوٹ جائے گا۔

اگر لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا دروازہ بند کردیا ہوتا تو کبھی بھی لوگوں اپنے کروڑوں روپے الیکشن مہم میں صرف نہ کرتے یوں زورو شور سے الزام تراشیاں نہ ہورہی ہوتیں اقتدار کی خواہش نے تمام اخلاقی حدیں عبور کردیں ہیں چار سو چور چور کی صدائیں گونج رہی ہیں کیا یہ صد ائیں بالکل غلط ہیں ؟ نہیں یہاں دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ سب کچھ کالا ہے چھوٹے چور بڑے چوروں کو اوربڑے چور چھوٹے چوروں للکا ر رہے ہیں اورقوم چور چور کی صدائوں سے تنگ آکر ملائوں کے ڈھائے چڑھ گئی ہے جو سترسالوں سے اتفاق واتحاد کا درس اپنے پیروکاروں کو نہ سمجھا سکے جنہوں نے اپنی گفتار اورکردار سے امت مسلمہ کو فرقہ بندی میں جکڑے رکھا جو آج بھی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے بعض تو لاحول ولا حرم شریف میں بھی امام حرام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ایسے لوگ جب ریاست کی باگ دوڑ سنبھالیں گے توذرہ سوچیے پاکستان کیسا ہو گا؟

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

Rashid Ali

Rashid Ali

تحریر : راشد علی