پسِ دیوار بھی اکثر صدائیں خوب ملتی ہیں

Heart

Heart

پسِ دیوار بھی اکثر صدائیں خوب ملتی ہیں
یہاں پر دل لگانے کی سزائیں خوب ملتی ہیں
محبت کرنے والوں کو جفائیں خوب ملتی ہیں
کسی ٹُوٹے ہوئے دل پر ذرا سا پیار کا مرہم
اگر بھُولے سے بھی رکھ دیں دعائیں خوب ملتی ہیں
نجانے موسموں کو اُن سے کیا بغض و عداوت ہے
بِنا مانگے جنہیں غم کی گھٹائیں خوب ملتی ہیں
تمہاری یاد کے جلتے چراغوں کو شبِ غم میں
زمانے بھر کی طوفانی ہوائیں خوب ملتی ہیں
زبانِ بے بیانی ترجمانِ رنج وغم جب ہو
پسِ دیوار بھی اکثر صدائیں خوب ملتی ہیں
لبادہ چاک ہو غنچوں کا یا پت جھڑ کا منظر ہو
ہمیں تو چار سُو تیری ادائیں خوب ملتی ہیں
وہ جن کی آنکھ سے لپٹی ہو وسعت آسمانوں کی
انہیں اونچی اڑانوں کی فضائیں خوب ملتی ہیں

زریں منور