سانحہ گلشن پارک لاہور

Blast Gulshan-e-Iqbal Park Lahore

Blast Gulshan-e-Iqbal Park Lahore

وہی دُستور جینے کا ، وہی اُسلوب اب بھی ہے
پسِ تہذیب جو کچھ تھا ہمیں مطلوب اب بھی ہے
یہاں نمرود قائم ہیں سبھی فرعون دائم ہیں
مسیحا بن کے جو آئے یہاں مصلوب اب بھی ہے
سہم کا، وہم کا تریاق ہے تحقیق میں لیکن
میری اندھی عقید ت ہی میری محبوب ا ب بھی ہے
مورخ کیا پُکارے گا وہ جب تاریخ لکھے گا
کہ قصہ دہشتوں کانا م سے منسوب اب بھی ہے
شبِ ظلمت کے بلبل تک کوئی جگنو نہیں پہنچا
فسانہ گائے بکری کا ہمیں مرغوب اب بھی ہے
٭
(سانحہ گلشن پارک لاہور)
اوجِ فلک تھے ، آج تہہِ خاک سو گئے
اتنا ہنسے کہ دیدہ ِ نمناک ہو گئے
دشمن کا کوئی وار بھی خالی نہیں گیا
ہم کو گماں کہ ہم بڑے چالاک ہو گئے
ہم کاشغر سے نیل ملانے کے شوق میں
خود شام بن گئے کبھی عر اق ہو گئے
لاشوں کے دام ہیں تو کہیں قیمتِ لہو
ان مرہموں سے قلب و جگر چاک ہو گئے
دہقاں کی فصل قابلِ برداشت کیا ہوئی
”موسم کے ہاتھ بھیگ کر سفاک ہو گئے”
(آخری مصرع محترمہ پروین شاکر کاہے)
٭

دشمن کی کوئی چال نہ جھگڑا رقیب کا
پر آستیں کا سانپ ہے ساتھی قریب کا
دونوں جگہ ہیں دین و سیاست ملی ہوئی
ہو کر بلا کی بات یا قصہ صلیب کا
٭
لہجے کی شکن سے مجھے محسوس ہوا ہے
اِثبات میںتیرے کہیں انکار چھپاہے
ٹوٹی ہوئی سینے میں سِناں بول رہی ہے
اغیارکے لشکر میں کوئی یار چھپا ہے
٭
جو چاند دیکھ آئے ہیں اس سوچ میں ہیں گم
زُہرہ، مریخ و زُحل تک کیسے رسائی ہو
پر ہم نے غور و فکر کی تاریخ رقم کی
عورت کی کس لحاظ سے ، کتنی پٹائی ہو
٭
زمانے بھر کی بے شرمی، جہالت جس میں شامل ہو
ہم ایسے معجزے کس شان سے انجام دیتے ہیں
خود اپنے ہاتھ سے زندہ جلا دیتے ہیں بیٹی کو
اور اس حیوانیت کو غیرتوں کا نام دیتے ہیں

فخر لالہ
(لیکچرار اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج خانیوال)

0302-4772747
fakharlala33@gmail.com