یہ جنگ ملک کی بقاء کی ہے یا فتح کی؟

Pakistan

Pakistan

تحریر: شیخ خالد ذاہد
راقم الحروف نے جب سے ہوش سنبھالا ہے وطنِ عزیز کو بحرانوں کی ذد میں ہی دیکھا ہے۔ ہو شمندی کے تجربے کی بنیاد پر پاکستان کو بحرانوں کی سرزمین لکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معاملات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے مگر ہوتا کوئی نا کوئی بحران ہی ہے۔ بحرانوں کیلئے کیا یہ دلیل کافی نہیں کے نام کے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں آج تک تین طویل مارشل لاء نافذ کئے جاچکے ہیں اور قوم چوتھے مارشل لاء کی متمنی اور شدت سے انتظار کرری ہے۔ مارشل لاء یا آرمی کا اقتدار سنبھالنا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی واضح دلیل ہے۔ کیا یہ سیاستدانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ ملک میں جمہوری طرزِ حکومت رواں رکھنے میں ناکام رہیں اور شائد ہیں۔ چوتھے مارشل لاء کی قوم کیوں منتظر ہے، جی ہاں! قوم کو اگر کچھ سکھ کا سانس لینے کو ملتا ہے تو مارشل لاء میں ہے کیونکہ عام حالات یا نام نہاد جمہوریت میں تو سیاستدان ایک لمحہ کی فرصت نہیں لینے دیتے۔ یہ غلط ہے، یہ غلط ہے، یہ غلط ہے اور صحیح کون ہے اس بات کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے یا پتہ نہیں کہ کوئی ہے ہی نہیں۔

ہمارے ملک میں اسمبلیوں کی نشستیں خاندانی ہیں۔ جسے علاقائی بادشاہت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ بادشاہت میں احتساب کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور ہم سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ احتساب کے بغیر کوئی چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی نہیں چل سکتا تو پھر ملک کیسے چلایا جاسکتا ہے۔ پہلے کے ادوار میں تلوار کے زور پر علاقے فتح کئے جاتے تھے اور طاقت آپکے بازؤوں میں پنہا ہوا کرتی تھی۔ آج تلوار کی طاقت کی جگہ سیاست نے لی ہے اور علاقوں پر قبضہ بذریعہ سیاست کیا جانے لگا۔پاکستان آج بھی علاقائی تقسیم کا شکار ہے سیاسی جماعتیں نام کو ہیں یا یوں کہا جائے کہ علاقے کے معززین کو سیاسی جماعتیں خود ہی اپنا نمائندہ بنا لیتی ہیں تاکہ وہ اپنے علاقے سے جیت کر اسمبلی میں اپنی جماعت کی اکثریت میں اضافہ کرے۔

Pakistan People

Pakistan People

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پٹھان ہیں، پنجابی ہیں، بلوچی ہیں، سندھی ہیں، سرائیکی ہیں، براہوی ہیں، ہزاروال ہیں، مکرانی ہیں، اردو بولنے والے ہیں اور پھر شیعہ ہیں، آغا خانی ہیں، بوہری ہیں، بریلوی ہیں، دیوبندی ہیں، اہلحدیث ہیں، اور پھر فیصل آبادی ہیں، گجراتی ہیں، میمن ہیں، بہاری ہیں وغیرہ وغیرہ، اور پتہ نہیں کیا ہیں بس نہیں ہیں تو پاکستانی نہیں ہیں۔

حکومت کو عمران خان صاحب سے اور ان کی زبان سے شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور اب لگتا یہ کہ تیسری مرتبہ بھی میاں صاحب کی حکومت اپنا وقت پورا کرتی نظر نہیں آرہی۔ اب اس حکومت کے خاتمے کیلئے کون سا ہاتھ یا بوٹ حرکت میں آئے گا یہ وقت بتائے گا۔

ہم پاکستانیوں کیلئے اسوقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت سرحد پر بھرپور تیاری سے بیٹھا ہوا ہے اور مسلسل چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے ، دوسری طرف افغانستان کی سرحدیں بھی اب غیر محفوظ سمجھی جا رہی ہیں، پھر کوئٹہ میں ہونے والا پولیس اکیڈمی کا سانحہ اور پھر کراچی میں ایک مجلس پر فائرنگ، ملک کے اندورنی حالات کی خستگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حکومتِ وقت بلکل بھی کسی حکمت سے کام لینے سے قاصر ہے اور اپنے ہر اقدام سے خان صاحب کی تحریک کو تقویت فراہم کئے جا رہی ہے۔

Islamabad Protests

Islamabad Protests

انہوں نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کو کہا تھا حکومت نے ایک ہفتہ قبل ہی اسلام آباد اور پنڈی بند کروادیا۔ اب حکومت گرفتاریوں کی طرف زور دے رہی ہے اور آج تحریک انصاف کہ دو رہنماؤں عارف علوی اور عمران اسماعیل کو گرفتار کر لیا ہے۔ خان صاحب کی دیدہ دلیری اور انکے پش اپس کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ خان صاحب کو کیا پاکستان کی داخلی اور خارجی صورتحال سے کوئی آگاہی نہیں ہے کیا انکے مشیر صورتحال سے نمٹنے کاکوئی بیچ کا راستہ نہیں بتاء سکتے یا وہ بھی ملک کو کسی مشکل میں دیکھنے کے درپے ہیں تو پھر ان مشیروں کی پاکستانیت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر خان صاحب نے جارحانہ انداز میں کھیلنے کی ٹھان لی ہے اور وہ حکومتِ وقت کو گرا کر ملک میں سول ڈکٹیٹر بن کر اپنے داخلی اور خارجی دشمنوں سے خوب اچھی طرح نمٹ لینے کے خواہ ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت کی بوکھلاہٹ خان صاحب کی تحریک کو جلا دیتی جا رہی ہے۔

اس وقت ملک کی باقی تمام سیاسی جماعتیں دفاعی حکمتِ عملی کی اعلی ترین مثالیں قائم کر رہی ہیں یا شائد ہمیشہ سے ہی مردار کھانے کی عادی ہیں، کم از کم صحیح اور غلط کا اپنے ووٹرز کو تو بتائیں اور بتائیں کے وہ کس طرف کھڑے ہیں اور کس کا ساتھ دے رہے ہیں اپنے ہونے کی وضاحت کریں، کہیں پھر ایسا نا ہوجائے کہ سارے ووٹرز اسی طرف ہوجائیں جو ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ملک کو فتح کرنے والے تاریخ کا حصہ بن کر رہے جائیں۔

Sheikh Khalid Zahid

Sheikh Khalid Zahid

تحریر: شیخ خالد ذاہد