وزیرآباد میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیس اور پولیس کا رویہ

Mehwish

Mehwish

وزیرآباد (تحصیل رپورٹر) میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیس اور پولیس کا رویہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوام الناس کیلئے بڑی پریشانی کا باعث، ایس ایچ او کے تبادلہ کا مطالبہ
تھانہ سٹی میں درج گینگ ریپ کیس چند ہی دنوں میں ٹھکانے لگنے اور مک مکا کی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ چند روز قبل مہوش نامی لڑکی نے پولیس تھانہ سٹی میں بعض افراد کی طرف سے جنسی زیادتی کے الزامات پر مبنی درخواست گزاری جس پر ابتداء میں ایس ایچ او کی طرف سے کاروائی کی بجائے لڑکی کو رضامندی سے ریپ کروانے کے طعنوں کیساتھ گالیاں اور دھکے دیکر تھانہ سے باہر نکال دینے کی اطلاعات آئیں۔ اس سلسلہ میں متذکرہ لڑکی کی طرف سے میڈیا کو بیان بھی دیئے گئے کہ بااثر افراد اسے کئی ماہ سے زیادتی کا نشانہ بنا رہے تھے اور پھر ملک ارشد نامی شخص کے پاس فروخت کردیا گیاجو لڑکی کو ایک مکان میں رکھ کرنکاح کے وعدہ کی آڑ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔

گجرات سے آنے والے معززین اور میڈیا کی مداخلت پرپولیس تھانہ سٹی نے اے ایس پی غلام مرتضیٰ کی ہدایت پر مقدمہ تو درج کرلیا مگر ایک ملزم کے سوا کسی کو حراست میں نہ لیا گیا۔ کیس کی تفتیش منشاء نامی سب انسپکٹر کو سونپی گئی ،حراست میں لئے جانے والے ملزم کی بھی باقاعدہ گرفتاری نہ ڈالی گئی۔معلوم ہوا ہے کہ کیس کو گول کرنے کی غرض سے لڑکی کا نکاح ملک ارشد نامی ملزم کیساتھ کروا کے روایتی طریقہ کے مطابق مبینہ مک مکا کے بعد لڑکی سے رسمی بیانات لیکر ملزمان کو ابتدائی طور پر بے گناہ کردیا گیاہے اور کیس اختتامی مراحل میں پہنچ چکا ہے۔

ملزمان گناہگار ہوتے بھی تو کیسے تفتیشی افسر کا باس ایس ایچ او اس مقدمہ کو درج کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا کہپولیس کو ہر کیس میں تفتیش اور تحقیق میں محنت کرنا پڑتی ہے پولیس کو یہ بھی معلوم تھا کہ مہوش نامی لڑکی کے گھروالوں نے اس سے قطع تعلقی کررکھی ہے ایسے میں کون پولیس کے ناز نخرے اٹھاتا اور ایس ایچ او محمد نواز گجر جو کہ مقدمہ کے اندراج سے قبل ہی اس کیس میں مدعی بننے والی مہوش کیساتھ گالی گلوچ کے ذریعے ناروا سلوک کا مرتکب ہوا تھا کی موجودگی میں یہ کیس کس طرح انجام تک پہنچ سکتا تھا

کس طرح ملزمان کو سزائیں مل سکتی تھیں۔ یہاں بات مہوش یا اس کے مقدمہ کے ملزمان کی گرفتاری اور بریت تک محدود نہیں رہتی بلکہ درخواست میں لگائے جانے والے الزامات کی سنگینی کے مطابق اگر گناہگار ملزمان کو رعایت ملتی ہے تو معاشرے کی اقدار کی تباہی تک جاتی ہے بالفرض درخواست کے مندرجات کے مطابق ملزمان گناہگار ہیں (یقینا کسی کی طرف سے اتنے سنگین نوعیت کے لگائے جانے والے الزامات حقائق کے قریب ترین ہی ہوتے ہیں) تو ایسے میں ایک ملزم کے ساتھ نکاح کرلینے سے کیا ملزمان کے جرائم کی پردہ پوشی کی جاسکتی ہے اور ایک بیان کے ساتھ سنگین جرم کرنے والوں کا جرم معاف ہوجاتا ہے؟

ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ یہاں پولیس جسے چاہے مجرم بنادے اور جسے چاہے بے گناہ کردے!اس کیس میں بھی ملزمان کو بلا تفتیش بے گناہ کردینے اور ایک ملزم کیساتھ نکاح پڑھوا دینے سے اس ملزم کے اپنے گناہ ریاستی ادارے کی طرف سے دھل جانے کی گارنٹی کیساتھ باقی ملزمان کے جرموں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے یہی وہ واقعات ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پولیس کی مہربانی سے ریپ کے ملزمان اگر مجرم ہونے کی صورت میں بے گناہ کردیئے جاتے ہیں تو اس طرح معاشرے میں ایک کے بعد دوسرا قبیح واقعہ رونما ہوتا رہے گا پھر الف کے بعد ب ج س اس معاشرے میں موجود جنسی درندوں کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکتے۔ مہوش کا واقعہ پولیس تھانہ سٹی کے علاقہ کا ایک ہی واقعہ نہیں

بیشتر لوگ اپنی عزت کے خوف سے تھانہ جانے سے کتراتے اور گھٹ گھٹ کر مرتے رہتے ہیں جبکہ مختلف نوعیت کے کیسوں میں سائلین کی طرف سے یہ شکایات عام ہیں کہ تھانہ کا ایس ایچ او تھانہ رجوع کرنے والے سائلین پر الٹا برس پڑتا اور انہیں ہتک عزت کا نشانہ بناتا ہے مہوش کا کیس ہی اس کی بڑی مثال ہے۔اس کے بعد محلہ تیلی پورہ کا ایک کیس سامنے آیا جس میں ہفتم جماعت کے طالبعلم حمزہ کو پانچ ملزمان ایک کمرے میں لیجا کر زیادتی کا نشانہ اوراس حرامزدگی کی ویڈیو بناتے ہیں۔ لڑکے کا والد فضل الرحمن تھانہ سٹی میں جاتا ہے تو حسب معمول ایس ایچ او صاحب کی جانب سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔بے چار ہ والد بے بس ہو کر ایک بار پھر میڈیا کا سہارا لیتا ہے اور میڈیا کے سامنے رو رو کر ایس ایچ او کے رویے کے بارے میں بتاتا ہے کہ ایس ایچ او محمد نواز گجر اسے کہتا ہے کہ وہ جا کر ملزمان کیساتھ صلح کر لے

یہ مقدمہ درج نہیں ہوتا مقدمہ درج ہوا تو بچے کی عزت پر حرف آئے گا اور ملزمان بااثر ہیں۔لڑکے کے والد نے بتایا کہ برادری بھائی کی بنیاد پر ایس ایچ او ملزمان کے خلاف کاروائی نہیں کررہا اس کیس میں بے بس والد انصاف کی تلاش میں پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس گوجرانوالہ جاتا ہے جن کی طرف سے احکامات پر پولیس تھانہ سٹی ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرتی ہے ۔مگر اس کیس میں بھی کیا ہو گا کچھ دنوں میں ایسی ہی خبر آئے گی کہ کیس ڈیل ہوگیا ہے یا ملزمان بے گناہ تھے۔تھانہ سٹی کے علاقہ میں بڑھتے ہوئے زیادتی کیسوں پرموقف کیلئے صحافیوں کا ایک وفد سنیئر صحافی سید شہباز بخاری کی قیادت میں ایس ایچ ا و تھانہ سٹی کے پاس گیا تو ایس ایچ او تھانہ سٹی کا صحافیوں کو دیکھتے ہی پارہ بلند ہوگیا۔

موصوف نے اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی بجائے صحافیوں کو گینگ ریپ کے واقعات کاذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں کی وجہ سے مجبوراََ مہوش کا بھی مقدمہ درج کیا تھا میں کسی صورت ریپ کے مقدمات درج نہیں کرتا قانون نے سب کو آزادی دے رکھی ہے کہ جو مرضی آئیں کریں جائو جا کر آرڈیننس پڑھ لو تم لوگوں کو کسی بات کا پتہ نہیں ہوتاآجاتے ہو منہ اٹھا کرایس ایچ او موصوف نے جو زبان استعمال کی اورجس انداز میںعورت ذات کی توہین کی وہ یہاں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ایس ایچ او ذاتیات پر اتر آیا اور کہا تم ایک بازاری عورت جو کہ کرسچین ہے کیساتھ ہمدردیاں لیکر آئیتھے ، جائو اسی کے ہمدرد رہو تم تھانہ میں بھی مت آنا ۔پولیس کی غفلت کی وجہ سے شہر میں ایسے واقعات میں روزبروز اضافہ ہورہاہے۔

مبینہ حاملہ مہوش والے کیس میں اگر مہوش کے نئے موقف کے مطابق ملزمان کو چھوڑا جاتا ہے اور انہیں ہر طرح سے بے گناہ کردیا جاتا ہے تو اس میںمہوش زنا بالرضا کی مرتکب ٹھہرتی ہے اس طرح مہوش اور اس کیساتھ زنا کے مرتکب ہونے والے افراد کو سزائیں ملنی چاہیئیں کہ ہمارا دین بھی اس طرح کے جرم کرنے والوں کیساتھ سختی سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ جہاں تک ایس ایچ او کی طرف سے صحافیوں کو متاثرین کے واقعات کی کوریج پر پارٹی بنانے اور انتقامی رویہ اپناکر انہیں ٹارگٹ کرنے کی بات ہے تو اس طرح ایس ایچ او یا پولیس افسران اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ نہیں کرسکتے۔ صحافی کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں پائے جانے والے جرائم بے نقاب کرے صحافی واقعات کی من وعن کوریج کرتا ہے۔

باقی ذمہ داری متعلقہ اداروں اور سیٹوں پر بیٹھ کر تنخواہیں لینے والوں کی ہوتی ہے وہ اپنے فرائض کیساتھ دیانتداری کیساتھ عہدہ برآہوں، صحافی کسی کی طرف سے کبھی پارٹی بن کرنہیں آتا صحافی خبر کی تلاش میں آتا ہے اور متاثرین کی دادرسی نہ ہونے پر ان کی آواز حکام بالا تک پہنچاتا ہے کیسوں پر تفتیش اور تحقیق اداروں اور ادارواں سے وابستہ افراد کاکام ہے۔ ایس ایچ او کی طرف سے صحافیوں کو پارٹی بنانا اور ہتک عزت کا نشانہ بنانا کسی طور پر بھی درست اور معاشرے کے باشعور طبقہ کیلئے قابل قبول نہیں اور عوام الناس میں ایس ایچ او صاحب فرض شناس صحافیوں کو برا بھلا کہیں یہ کسی بھی طرح کسی ذمہ دار آفیسر کے شایان شان نہیں ہوتا، سیٹوں پر بیٹھ کر اپنے فرائض کو پہچاننے والا اور رعایا سے با حسن وخوبی پیش آنے والا ہی اچھا افسر ہوتا ہے۔

عوامی، سماجی حلقوں نے تھانہ سٹی کے علاقہ میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تھانہ سٹی میں فرض شناس ایس ایچ او عملہ کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ صحافی برادری بھی بھرپور مطالبہ کرتی ہے کہ سائلین اور صحافیوں کیساتھ انتقامی رویہ رکھنے والے ، پرامن معاشرے کے قیام اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ایس ایچ او موصوف کو وزیر آباد سے فوری تبدیل کیا جائے۔

Hamza and his Father

Hamza and his Father