شادی کے موقع پر بزرگوں سے چند گزارشات

Wedding

Wedding

تحریر : افضال احمد
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شادی مذہبی فریضہ بھی ہے اور معاشرتی ضرورت بھی’ یوں تو شادی کا فریضہ کسی بھی دن اور کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں شادی کا سیزن عید کے بعد شروع ہو جاتا ہے’ یعنی عید کے بعد شادیوں کا موسم اپنا رنگ جماتا ہے ‘ جیسا کہ اب عید الاضحی کا موقع ہے تو تقریباً ہر گلی’ ہر محلے میں کسی نہ کسی کا گھر شادی کیلئے سجا ہوا ہے۔ شادی کے نام پر ہمارے یہاں کس قدر ہندوانہ رسم و رواج کو فروغ دیا جا رہا ہے شاید کسی نے نہیں سوچا۔ شادی کے موقع پر جو رسومات ادا کی جاتی ہیں ہم لوگوں نے اس مقدس فریضہ کو دو طرفہ ”شو” بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بناوٹ اور نمودو نمائش کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو ہم میں سے بہت سے لوگ جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں دوسری طرح شادی کے موقع پر لڑکے کا پورا خاندان یہ ہی سوچ رہا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں لڑکی والے فلاں چیز جہیز میں دیں گے کہ نہیں دیں گے۔ اب تو لڑکی کی جسامت سے زیادہ جہیز کی جسامت’ لڑکی کی صورت سے زیادہ جہیز کی صورت اور لڑکی کی سیرت سے زیادہ جہیز کی قیمت دیکھی جاتی ہے۔

نکاح سے پہلے کی رسومات مثلاً مایوں’ بَری’ مہندی وگیرہ کو لوگوں کی اکثریت فضول خرچی سمجھتی ہے مگر ان رسومات کو ادا بھی کرتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ خوشی بار بار نہیں آتی اور ان فضول رسومات کے ذریعہ سے اپنی جائز و ناجائز دولت کی تشہیر اور معاشرے میں نام و نمود کے حصول میں سرگرم عمل ہیں۔اسلام نے جس قدر سادگی پر زور دیا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی لیکن ہم ”فضول خرچ قوم” ہیں۔ نمائش میں یقین رکھتے ہیں اور ذہنی طور پر دکھاوے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ یقین کیجئے کہ ہماری ترقی کی راہ میں ہمارا یہ رویہ اور فضول خرچی کی عادت دیوار چین بن کر کھڑی ہے۔ دنیا کے کسی اور اسلامی ملک میں شادی و بیاہ کی نہ اتنی رسومات ہیں اور نہ ہی اس قدر دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہے جس طرح ہمارے ہاں اس موقع پر روپے کو آگ لگائی جاتی ہے۔

عزیزوں’ دوستوں کو دعوت دینا ضروری ہے بلکہ اسلام کا تقاضا ہے لیکن شادی کی رسم کو کئی دنوں اور کئی راتوں پر پھیلانا محض فضول خرچی ہے۔ فضول اور ہندوانہ رسومات کو شادی کا ناگزیر حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ان رسومات کو اگر ترک نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی چادر دیکھ کر ہی پائوں کو تو پھیلایا جا سکتا ہے۔اُبٹن اور مہندی کی تقریبات کو تفریحی تقریبات سمجھا جاتا ہے جس میں گانے بجانے کے سلسلے کے ساتھ ساتھ یہ فیشن شو یا فینسی ڈریس شو کا چھوٹا سا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ اس موقع پر لڑکیاں نئے نئے فیشن کے حامل ایک سے بڑھ کر ایک کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور مووی کی آمد نے مزید بناوٹ کو فروغ دیا ہے اور آج یہ حالت ہے کہ افسر ہو یا چپڑاسی معاشرے کا ہر فرد ان رسومات کی گرفت میں ہے۔

Sad Girl

Sad Girl

ان رسومات کے باعث متوسط طبقہ اور غریب عوام احساس کمتری کا شکار ہو کر ذہنی اور اعصابی دبائو کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ رسومات میں لباس’ زیورات’ آرائشی اشیائ’ کھانوں اور دیگر لوازمات کے ذریعے دولت کا بے جا اسراف معاشرے میں بڑے پن کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ رسومات معاشرے کا ناسور بن گئی ہیں۔ شادی کی رسومات ہی کیا اب تو شادی ہال بھی سٹیٹس سمبل بن گئے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ شادیاں بہت سادگی سے اور عام طور پر گھروں یا گھروں کے باہر شامیانہ لگا کر ہو جایا کرتی تھیں۔ سماجی تقریبات کے لئے صرف ایک یا دو کلب ہوا کرتے تھے جنہیں ایک مخصوص طبقہ استعمال کرتا تھا۔ زمانہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی اقدار میں تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے کل تک جو چیز قابل فخر تھیں وہ آج قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اقدار اور لوگوں کی سوچیں بھی بدلتی چلی گئیں اور معیار زندگی خوب سے خوب تر ہوتا چلا گیا۔

اب میرج گارڈنز یا شادی ہالز میں شادی کی تقریبات ہماری ضرورت یا مجبوری بن چکی ہے۔ پہلے زمانوں میں شادیاں گھروں میں ہوتی تھیں تو پورے گھر میں رونق ہوا کرتی تھی بزرگ دیگیں پکوایا کرتے تھے’ نوجوان لکڑیاں’ راشن وغیرہ اکٹھا کرتے تھے اور سب خواتین ایک جگہ بیٹھ کر ڈھیروں چاول چُگا (صاف) کیا کرتی تھیں بہت سادہ شادیاں ہوا کرتی تھی۔ سب خاندان والے ہنستے کھیلتے مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ آج کل کے بزرگوں سے گزارش ہے کہ جب دو خاندان ایک ہو رہے ہوں یعنی لڑکی’ لڑکے کی شادی طے پا جائے تو دونوں خاندانوں کے بزرگ ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں اور اپنے اپنے رسم و رواج ایک دوسرے کو بتائیں اور جب سب رسم و رواج ایک دوسرے کو بتا چکیں تو بزرگ حضرات دونوں خاندانوں میں اعلان کریں کے ہماری اس شادی میں کوئی رسم و رواج نہیں ہوں گے۔

لڑکی والوں کے بزرگ اور لڑکے والوں کے بزرگ مل بیٹھ کر سب رفع دفع کریں اور شادی کو انتہائی آسان بنا دیں۔ ہاں اگر کچھ کرنا ہے تو جس جوڑے کی شادی ہو رہی ہے اُن میاں بیوی کے لئے کریں۔ اگر بہت فالتو پیسہ ہے تو رسم و رواج میں پیسہ ضائع کرنے کی بجائے جن (لڑکی’ لڑکا) کی شادی ہے اُنہیں وہ پیسہ دے دیں تا کہ اُن کی آنے والی زندگی میں جو ضروریات ہیں پوری ہو سکیں۔

Pakistani Wedding

Pakistani Wedding

ہمارے ہاں بزرگ اپنے بچوں کی شادیوں کے بعد لڑکے پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ وہ بیچارہ چیخ اُٹھتا ہے کہ میں نے یہ شادی کا عذاب گلے میں کیوں ڈالا۔ بزرگوں سے گزارش ہے لاکھوں روپیہ رسم و رواج میں ضائع کرنے کے بجائے نئے ”جوڑے” کو دیں تا کہ ان کی نئی شادی شدہ زندگی کی جو ضروریات ہیں اُن پیسوں سے پوری ہو سکیں۔ مجھے معذرت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بزرگوں کی وجہ سے آج کل کی شادیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ بزرگوں کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ ہمارے باپ دادا سے یہ رسم و رواج چلتے آرہے ہیں تو ہم کیوں نہ ان رسم و رواج کی پیروی کریں۔ بزرگوں سے گزارش ہے کہ اگر باپ دادا جہنم میں جا رہے ہوں تو آپ بھی جہنم میں جانے کی خواہش رکھیں گے؟۔

طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے بزرگوں کا بہت بڑا ہاتھ اب سب بزرگ مجھے غلط سمجھیں گے۔ شادی پر اتنا پیسہ لگا دیتے ہیں اور جیسے ہی شادی ہوتی ہے بزرگوں کو بہو اور بیٹے میں برائیاں نظر آنے لگ جاتی ہیں۔ لڑکے کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے کہ بجلی کا بل زیادہ ہو گیا’ گیس کا بل زیادہ ہو گیا وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ لڑکا اتنا تنگ آجاتا ہے کہ وہ یہی سوچتا ہے کہ کاش میں شادی نہ ہی کرتا اور آخر کار تنگ آکر طلاق دے دیتا ہے۔ بزرگوں کو چاہئے کہ جب بیٹا پریشان ہو تو اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ مت کریں نہیں تو نتیجہ ”طلاق” ہی ہو گا۔

جب بزرگ باپ دادا کی رسم و رواج کی بات کرتے ہیں تو ان بزرگوں کو چاہئے کہ باپ دادا کی جائیدادیں بھی بیٹوں’ بیٹیوں کو دے تا کہ انہیں آنی والی زندگی میں پریشانی نہ ہو۔ باپ’ دادا کیا صرف رسم و رواج بنانے کے لئے دنیا میں آئے تھے؟ بزرگوں فضول رسم و رواج کو اپنی زندگی میں ختم کر جائو’ آنے والی نسل کے لئے شادیوں میں آسانیاں پیدا کر جائو’ آپ کے مرنے کے بعد آنے والی نسل آپ کو بے شمار دعائیں دیں گے۔ بزرگوں سے میں معذرت چاہتا ہوں لیکن بزرگوں کے لئے یہ سب لمحہ فکریہ ہے۔

Afzaal ahmad

Afzaal ahmad

تحریر : افضال احمد