ویلکم تو پی ٹی آئی کرشنگ مشین، عامر لیاقت حسین

PTI

PTI

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
سچ پوچھیں مجھے اگر یہ پتہ چلتا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے نون غنوں اور فضلیوں کو برنال کے کنٹینر درکار ہوں گے تو میں عمران خان صاحب سے کہتا ان کی درخواست کو کئی ماہ سے التواء میں تھی اسے قبول کر لینا چاہئے تھا۔اتنی جلن اتنی مزاحمت جس کسی نے درس اخلاق دیا ان کی وال پر جا کر دیکھا تو پکے مسلم لیکئے نکلے اور وہ لیگ جو اب سر بازار لیک ہو رہی ہے اس کے چاہنے والوں نے عامر لیاقت حسین کی کردار کشی میں حضرت شیطان سے بھی آگے نکل گئے۔حضور ہم نے کب کہا ہے کہ مولانا مودودی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔تحریک انصاف کو ڈاکٹر بابر اعوان چودھری فواد حسین کے بعد اگر کوئی ایک سپوکس پرسن اس کراچی سے مل گیا ہے جہاں تحریک انصاف کمزور ہے اور جہاں پاکستانیت کی آواز بھی کوئی تگڑی نہیں تو اس میں میرا خیال ہے ہر اس شخص کو خوش ہونا چاہئے جسے پاکستان سے پیار ہے۔مجھے نواز شریف صاحب کا علم ہے وہ صرف حد ذات میں رہتے ہیں ان کی بیٹی یا بیٹا وزیر اعظم بنے انہیں پھر بھی اطمینان نہیں ملے گا وہ اپنی ذات کے لئے کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار ہیں۔مجھے ایک مسلم لیکئے نے کہا کہ خود اس نے میاں صاحب کی زبانی سنا ہے کہ مجھ میں سب بڑی بات یہ ہے کہ لوگ مجھے چہرے سے معصوم سمجھتے ہیں۔

جی ہاں ان کے گولو مولو چہرے سے یہی کچھ ہم بھی سمجھتے رہے لیکن ان کے بیانات کے پیچھے جو زہر ہوتا ہے کم از کم ان سے روابط کے بعد ہمیں پتہ چل گیا ہے۔پاکستان کے تمام دانشوروںنے ان کی اس بات کو ہلکا لیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ستر جیسا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔کسی نے سوچا کہ یہ بات کیسے کہہ دی گئی۔جناب اس لئے کہ جناب میاں نواز شریف ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے ساتھ مل کر پاکستان کا بازو مروڑ نا چاہتے ہیں۔جندال کے دوست ہیں جو مودی کا یار ہے اور مودی جندال نواز ٹرائیکا کچھ بھی کر سکتے ہیں ایسے میں ہند کے مودی الطاف حسین کی پیٹھ ٹھونک کر نواز شریف کی مدد سے اس ملک کے ساتھ وہ پلان رکھتے ہیں جو ان کے سینوں پر ٹھنڈ ڈال دے گا۔یہ بات میں وثوق سے کہتا ہوں ۔اس سے پہلے کے لوگ بھی کہتے رہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمالیہ روئے گا ہمالیہ کیا نلے کی پہاڑیاں بھی نہیں روئیں کہاں ہمالیہ اور کہاں چڑیالے کا پھلاہی والا نکہ دونوں خاموش رہے اور صاحب کی گردن لمبی بھی ہو گئی۔

تو کیا اس کراچی میں پاکستان سے پیار کرنے والی جماعتوں میں شیخ لیاقت حسین کے بیٹے کو نہیں آنا چاہئے جس نے تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان میں مثبت کردار ادا کیا۔یہ شیخ لیاقت حسین اس نفیس مسلم لیگ کے نائب صدر رہے ہیں جس کی صدارت پیر پگاڑا کے پاس تھی۔اگر ان کا بیٹا پی ٹی آئی میں آ گیا ہے تو اسے خوش آمدید کہنا چاہئے۔دوسری بڑی تکلیف ان کانگریسی ملائوں کو ہوئی ہے جو مدارس کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہیں انہیں تو شرم آنی چاہئے کہ پرویز رشید نے جب انہیں جہالت کی یونورسٹیاں کہا تو اس کا جواب انجینئر افتخار چودھری نے دیا جس کی پارٹی نے کے پی کے میں جہاد پر مبنی آیات کو نصاب کا حصہ بنایا جس نے علماء کو تنخواہیں دیں جس نے مساجد کو بجلی سے جان چھڑوائی۔اور جامعہ حقانیہ کو مالی مدد دی۔پاکستان کو صیح معنوں میں مدنی ریاست بنانے کا علان کیا فلاح بہبود کے نئے معیار قائم کئے۔پنجاب میں سڑکوں پر بچے جنے جا رہے ہیں اور اھدر کے پی کے میں پہلا بچہ انشورنس کی مد میں پیدا ہوا جس کا نام محبت سے عمران خان رکھ دیا گیا یہاں شبلی فراز جو پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں ان کے والد احمد فراز کا شعر یاد آ گیا۔

اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے کہ مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

بتائیں نہ کوئی زندہ مثال مجھے ایک ایم پی اے ہیں جو شیخو پورہ سے منتحب ہوئے تھے ان کا نام حاجی نواز تھا اور اتفاق سے ان کے والد کا نام شریف تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اپنا نام چھپا دیا کرتا تھا اس لئے کہ انہیں جلن ہوتی تھی۔ان ملائوں کے نام بس اتنا ہی کہوں گا کہ خدا را دین سیکھنے جاتے ہو دین کی بات کیا کرو اسلام کی بات کیا کریں۔آپ سے زیادہ گستاخان صحابہ کی سرکوبی کی بات ہم کرتے ہیں اعظم طارق میرے مہمان تھے مولانا عبدالعزیز ہمیں ملتے رہے حافظ سعید سے تعلق رہا لیکن ان سب کو اعتدال کی تبلیغ کی علماء سے محبت کی اور تو اور میں نے تو ختم نبوت کی تحریک میں مولانا زاہد الرشدی کے ساتھ جد وجہد کی آپ سے زیادہ دین کی سمجھ ہے ہاں صم بکم نہیں ہیں آنکھیں کھلی ہیں سینہ روشن ہے بچوں کو جہاں ڈاکٹر اور مارکیٹنگ مینجر بنایا وہاں حافظ قران بھی۔آپ کو جلن نہیں ہونا چاہئے ہم نے کراچی سے پاکستانیت کی ایک تگڑی آواز کو پارٹی میں شامل کیا ہے کسی وطن دشمن کو نہیں۔میں نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ اگر حنیف عباسی جیسا شخص پی ٹی آئی کے منشور پر آمین کہہ کر میری سیٹ پر الیکشن لڑ لے تو اس کی حمائت کریں گے ہم پارٹی کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ایک تو ہمارے داخلی ارسطو ہیں جو لیڈر تو عمران خان کو مانتے ہیں مگر اس کی ایک نہیں مانتے جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی فردوس عاشق اعوان اور بابر اعوان کی آمد پر بھی سیاپہ کرنا شروع کر دیا تھا خود میں ٢٠٠٧ میں جب پارٹی میں شامل ہوا تھا لوگوں کے بوتھے لمک گئے تھے سی ایسی میں پہلی تقریر میں کہا تھا کہ آئی تئے میں دیری نال آں پر کم دکھی تئے ٹکڑا دیو(آئی تو میں دیر سے ہوں مگر کام دیکھ کر روٹی دینا) اور وہی ہوا جو معترض تھے وہ کسی چھوٹے سٹاپ پر اتر گئے۔

دل بڑا کریں عامر لیاقت حسین اپنے حصے کی کھائے گا فردوس کا اپنا مقام اور چودھری فواد اپنی جگہ۔دکھ اس بات کا ہے کہ لوگ پرانی وابستگی کو میرٹ سمجھتے ہیں کچھ تو پرانے چاولوں کی طرح بوریوں میں بند ٹرکلے مارتے رہتے ہیں اور اپنی تقریروں میں نئے لیڈران کوحقارت سے بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے جونئیئر ہیں میں سینئر تھا پدرم سلطان بود اپنی کرتوتوں پر نظر ڈالیں پارٹی کارکنوں پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے شرم نہیں آئی قائد کے بھانجوں کی کنٹینر کے پیچھے پٹائی کرتے وقت سوچا تھا۔طعنہ ہمیں دیتے ہو جنہوں نے لاکھوں کی تنخواہوں کوٹھکرا کر قائد کی آواز پر لبیک کہا خود ہی نہیں بیٹے بھانجوں کی پارٹی خدمت دیکھیں۔من کا اندر تو رنگ بدلتا ہی تھا ان لوگوں نے چہروں کو بھی بدل لیا۔مسجدیں سب ہی اللہ کا گھر ہیں مگر ،مسجد ضرار میں سازشیں ہوتی تھیں۔کام شیطان بھی بہت کرتا تھا اور ہے مگر اس کی نیت تخریب تھی۔اس قسم کے تخریب کار ٹکٹ ضرور پائیں گے اسلام آباد سے مری براستہ فیض آباد۔عامر لیاقت حسین کو دلی طور پر خوش آمدید کہیں۔چر چر نہ کریں۔

بھیا فواد چودھری تو مجھ سے بہت جونیئر ہیں میں چودھری شہباز حسین اور انہیں پارٹی میں شرکت کی دعوت دیتا رہا مگر اپنے تجربے اپنی مہارت سے اگر وہ طلال چودھری،دانیال عزیز کا مکو ٹھپ چکے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہے۔پی ٹی آئی کے یہ منصف قائد کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں نون غنے اور فضلیئے پارٹی پر چڑھ دوڑے ہیں اس صورت حال میں ہمیں متحد ہو کر انہیں جواب دینا ہے سوشل میڈیا پر ان کی والز دیکھیں جو آپ کو نفاست کا درس دیتے ہیں ان کو پہچانیں۔کچھ تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار بھی ہیں جو کبھی ادھر اور کبھی ادھر کی چھوڑتے ہیں ان کے اپنے مفادات دیکھئے بنے ہوئے کالم نویس ہیں مگر جھولی چک نواز شریف کے ہیں عمران پر بولنے کی قیمت ملتی ہے رات کو اکٹھے ہوتے ہیں اپنے آقا کو اپنی کارکردگی بتاتے ہیں۔ایک کو تو جانتا ہوں اس نے کہا روز روز مجھ سے پیسے نہیں مانگے جاتے کالم کے فکس کر دیں بس یہ بتا دیں آج کس پر چڑھائی کرنا ہے۔اس کے تجزیہ کاروںکی تو ٹاک شوز میں خوب کلاس لیتا ہوں جو مطلب کے لئے کبھی کسی کو اور کبھی دوسرے پر غصہ نکالتے ہیں یہ بکائو مال ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی بنائیں یا کسی کے ساتھ شامل ہوں کبھی اس گلی کبھی اس گلی میں پٹوسیاں نہ ماریں۔آج ان کی توپوں کے رخ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب ہیں انہیں پی ٹی آئی میں دوسری جماعتوں کے لوگ تو نظر آتے ہیں مگر ماروی میمن دانیال عزیز طلال چودھری نہیں دکھائی دیتے۔عمران خان جس کو میں جانتا ہوں اسے یہ نام متآثر نہیں کرتے جو لالچ سے آئے ہیں وہ چلے جائیں گے اور جو پی ٹی آئی کی کرشنگ مشین سے گزریں گے وہ رہ جائیں گے۔

ان ہوائیں ہی کریں گے روشنی کا فیصلہ جس دیئے میں تیل ہو گا وہ دیا رہ جائے گا

پی ٹی آئی کی واشنگ مشین نہیں کرشنگ مشین ہے جہاں مصطفی کھر جیسے لوگ پچھلی نشستوں پر آرام سے بیٹھے من کی چٹانوں کو کرش کر رہے ہوتے ہیں۔ویلکم ٹو پی ٹی آئی کرشنگ مشین

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری