گندم کی بالی کا رنگ بدلتے ہی مر جھائے چہرے کھل اٹھتے ہیں

Wheat

Wheat

تحریر : عبدالجبار خان دریشک راجن پور
مارچ کے آخری دونوں میں جب سورج کی حرارت اپنی انتہاہ کی منزل کو پرواز کر تی ہے تو گندم کے ہر ے کھیت اپنا رنگ تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں پھر گند م کی پودے کی ہر ی بالیاں سونے جیسے رنگ کی مائند ہو جاتی ہیں پھر کسان کی امیدیں حقیقت کا روپ دھا رنے کے قریب ہو تی ہیں اس کے خواب پورے ہو نے کو ہو تے ہیں اس کی محنت جفا کشی اور پسینے کا صلح اسے ملنے والا ہو تا ہے اسے پتہ ہے کہ اس نے جب اللہ کا نا م لے کر زمین میں گندم کے دانے بوئے تھے اب وہ اسے اللہ کی شان وقدرت سے کئی گناہ زیادہ ملنے والے ہیں گند م کی فصل پکنے پر صرف کسان ہی خوش نہیں ہو تا بلکہ بہت سارے ایسے افراد ہو تے ہیں جومختلف پیشے اور ہنر سے وابسطہ ہو تے ہیں وہ بھی خوش ہو تے ہیں کیو نکہ اس با برکت فصل سے ان کا روز گا ر بھی شروع ہو تا ہے اس ایک دانے سے جب کئی دانے بنتے ہیں تواللہ پاک کی حکمت سے ہر دانے پر اس کے کھانے والا کانام لکھ دیتا ہے جو ان کے رزق کا سبب بنتا ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر تے ہیں۔

اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر با لی میں سو دانے ہو ں اور اللہ جیسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے (بقرہ۔261 )کسان گند م کی کٹائی پر خوشی منا تے ہیں ایک تو اس کی محنت رنگ لے آئی اور وہیں پر ان کے بال بچوں کے لئے سال بھر کا غلہ جمع ہو جائے گا گندم کی کٹائی سے کچھ دن قبل مارکیٹ میں زرعی آلات بیچنے اور مرمت کرنے والوں کی دوکانوں پر گاہکوں کی آمد رفعت شروع ہو جا تی ہے ساتھ ہی لوہار بھی کا فی مصروف ہو جا تا ہے لوہار کے پا س درانتی کے دندے تیز ے ہو نے شروع ہو جا تے ہیں اورلوہار نئی درانتیاںتیار کرکے پہلے رکھ لیتا ہے لو ہا ر درانتی کے د ندے تیز کر نے کی فیس تیس روپے کسان سے وصول کر تا ہے جبکہ نئی تیار شدہ درانتی کی قیمت دو سو روپے وصول کر تاہے گندم کی کٹائی سے قبل اس کا سیز ن شروع ہو جاتا ہے اب جدید دور ہے کسان اپنی آسانی اور وقت کی بچت کرنا چا ہتا ہے تو کافی سارے کسان گند م کی کٹائی مشینی طر یقے سے بھی کر واتے ہیں اس گندم کی برکت سے ان کے روز گار کا سلسلہ بھی چل پڑتا ہے۔

گندم کی فصل تیار ہو تے ہی دیہاتوں میں گند م کا ٹنے والی بڑی بڑی مشینوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے ان مشینوں کی وجہ سے پیٹرول پمپ والوںکے تیل سیل بھی بڑھ جا تی ہے دوسری جانب ہاتھ سے گندم کا ٹنے والے مزدور بھی مصروف ہو جا تے ہیں ہاتھ سے کٹا ئی کرنے والے فی ایکڑ کے حساب سے ڈھائی سے تین من گندم اجر ت میں وصول کر تے ہیں یہ مزدور اپنے تمام گھر کے افراد جن میںمرد خواتین بچے سب شامل ہو تے ہیں گندم کا ٹنے میں لگ جا تے ہیں ان کی کو شش ہو تی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایکڑوںکو کاٹ کر زیادہ گندم جمع کی جائے وہ اس گندم کو فرخت نہیں کر تے بلکہ اس گندم اپنے سال بھر کے غلے کے طور پر جمع کر لیتے ہیں گندم کی کٹائی کے مرحلے کے بعد اس کو سنبھالنے کے کا بندوبست کیا جا تا ہے جس کو جمع کر کے رسی کی مدد سے باندھا جاتا ہے پہلے دور میں دریا کنارے ہو نے والے کوندراور سر کے پودوں کو کاٹ کر رسے بنا ئے جاتے تھے پر اب کسان کی اس مشکل کا حل بھی نکل آیا ہے ٹیکسٹائل ملز سے کپڑے کے ناکارہ ٹکرے مختلف دوکاند ار یا عموماً لنڈے کا کاربار کر نے والے وہ ٹکرے لے آتے ہیں جو لمبائی کے رخ میں زیادہ ہو تے ہیں وہ ایک رسی جیسا کا م دیتے ہیں جس کو عام زبان میں ریل یا تھگڑی کہتے ہیں یہ بازار سے سو روپے کلومیں دستیا ب ہو جا تی ہے سیزن پر ان کی فروخت بھی زوروں پر آجا تی ہے جس سے آف سیزن میں لنڈے والوں کا کام لگ جا تا ہے جس سے وہ روزی کما لیتے ہیں۔

بڑی مشین سے کاٹی گئی گند م سے فوری دانے کسان کو مل جاتے ہیں جبکہ ہاتھ سے کا ٹنے کے بعد مزید کسان کو محنت کرنا پڑتی ہے جس کے کسان کو کچھ اور مراحل طے کر نے ہو تے ہیں پر اس مشکل مراحلوں میں کسان کو فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس کو اپنے جا نوروں کے چارے کے لئے سال بھر کے لئے بھوسہ(توڑی) میسر آجا تی ہے جبکہ مشین سے بھوسہ نہیں بنتا اور ضائع ہو جا تا ہے کھیت میںگند م کی چھوٹی چھوٹی ڈھریاں بنائی جا تی ہیں جو گندم کا ٹنے والے بنا تے ہیں پھر زمین کے ایک کو نے میں سب ڈھریوں کو لاکر جمع کر دیا جا تا ہے جو ایک بڑے ڈھیر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اب تھریشر کی مد د سے اس کو گھہایا جا تا ہے اکثر زمینداروں کے پا س اپنی ذاتی تھریشر نہیں ہو تے جس کی وجہ سے وہ یہ کا م اجر ت پر کر واتا ہے جو فی من کی اوسط کے حساب سے گندم کا حصہ اجرت کے طور پرادا کر تے ہیں تھر یشر والے گند م اجرت میں ملنے کے بعد اس کو کسی آڑھتی کے پاس فروخت کر دیتے ہیںتھریشر والوں کے یہ سیزن کے دن ہو تے ہیں تھر یشر والے کام کی فروانی کی وجہ سے بہت مصروف رہتے ہیں جو باقائدہ کسان کو اپنی آمد کا وقت دیتے ہیں کے فلاں دن یا رات کو آؤں گا اپنی لیبر اور کھانا بھی تیار رکھنا جب تھریشر لگتی ہے تو سارا دن ساری رات بھی گھہائی پر لگی رہتی ہے۔

اگر ڈھیری کم ہو تو کم وقت میں کام مکمل ہو جا تا ہے اب ٹریکٹر اور تھریشر والوں کا اس دانے کی وجہ سے روزگار چل پڑتا ہے کسان تھریشر کے مرحلے سے فارغ ہو کر حاصل ہو نے والی باقی گند م میں سے سب سے پہلے اپنے لئے سال بھر کا اناج گھر لے جا تا ہے باقی حساب کتاب کرنے کے بعد کسی آڑھتی یا پھر گورنمنٹ سے بوریاں دستیا ب ہو جائیں تو محکمہ فوڈ کو فرخت کر دیتا ہے لیکن یہ ایک مشکل مرحلہ ہو تا ہے اس لئے کسان سادہ ہو تا ہے وہ دفتروں اور بنکوں کے چکر وں میں نہیں پڑتا وہ گند م کو کم ریٹ پر نقد پر کسی آڑھتی کے پاس فروخت کردیتا ہے اب آڑھت اور جنس کا کاروبار کر نے واے لوگوں کا بھی سیزن شروع ہو جاتا ہے ان کی کوشش ہو تی ہے کہ اس ایک سے بمشکل دو ماہ کے سیز ن میں زیادہ سے زیادہ گند م خرید کی جا ئے اور جلد ی سے محکمہ فوڈ کو فرخت کی جائے تا کہ ایک سرکل چلتا رہے اب اس کا ربار سے منسلک کاروباری افراد کے علاوہ مزدورں کا سیزن بھی شروع ہو جاتا ہے جو عموماً پلے داری کا کام کر تے ہیں یعنی کھیت سے گند م کی بھرائی لو ڈنگ اور پھر فوڈ میں ان لوڈنگ کا کام کرنے والے لوگ ان کا بھی سیز ن دو ماہ کا ہوتا ہے انہوں نے ایک پوری ٹیم بنائی ہو تی ہے جس میں زور آوار جو ان مزدور ہو تے ہیں جو ڈھائی من کی بوری اٹھا سکے اور دن میں سینکڑوں بوریا ں کندھے پر لاد کر سٹاک تک لے جائے اب جو گند م کسان گھر لے گیا ہے اس کو سٹو ر کر نے کے لئے وہ جست کی چادر کے ڈرم کو استعمال کرتا ہے جس میں سال بھر دانے محفوظ رہتے ہیں یہ ڈرم جست کے صندوق بنانے والے تیارکر تے ہیں یہ دوکاند ار و کاریگر سیزن شروع ہو نے سے پہلے ایسے ڈرم تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں یہ ڈرم دس من سے لے کر اسی اور سو من تک گندم کو سٹور کر نے کی گنجا ئش رکھتے ہیں۔

اب ان کے کاروبار اور بنانے والے کاریگروں کی روزی لگا جا تی ہے اب سٹور کرنے والی گند م کو کیڑا لگنے سے بچانے کے لئے اس میں گولیاں اور پارہ ڈالا جاتا ہے سیزن شروع ہو تے ہیں پیسٹی سائیڈ کی دوکا نوں والے گولیوں کا سٹاک منگوا لیتے ہیں جبکہ پارہ حکیم کی دوکانوں پر فی تولہ کے حساب سے دستیا ب ہو تا ہے ان کا بھی کاروبار چل پڑتا ہے گند م کے سیزن پر دینی مدارس اور مسجد کے چندے والے بھی گندم کی فصل کا عشر اور زکواة بھی کسان سے لے جاتے ہیں جو اپنے درس میں پڑھنے والے یتیم اور غیر یب بچوںکی خوراک کے لئے ذخیرہ کر تے ہیں جس سے ان طلباء کی بھی کفالت ہو جا تی ہے ساتھ ہی ما نگنے والے فقیر اور مسکین بھی گندم کے سیزن میں دیہاتوں کا رخ کر تے ہیں جو کہ تھوڑی تھوڑی گند م جمع کرتے کرتے مناسب مقدار میں گند م جمع کرلیتے ہیں ایسے افراد گند م کو فروخت کر دیتے ہیں جس سے ان کی بھی روز ی لگ جا تی ہے اور زمیند ار بھی دینے سے نہیں کتراتا اس کے علاوہ فلور ملز والے بھی حکومتی کوٹے کے مطابق گند م کی خریداری خود یا پھر آڑھتی کے ذریعے کر تے ہیں جس سے مزید افراد کو روزگار کا مو قع مل جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہرگھر میںوافر مقدار میں گند م کی مو جو دگی سے آٹے کی پسا ئی کروائی جا تی ہے جس سے آٹے والی چکی والوں کی رونقیں لوٹ آتی ہیں اب گندم کے ایک دانے کی برکت سے پتہ نہیں کتنے ایسے افراد اور پیشے ہو ں گے جن کا کاروبار اس دانے کی وجہ سے چلتا ہو گا یہ اللہ پاک کی قدرت اور حکمت کا کمال ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے جو ایک دانے کے بدلے کئی کئی دانے عطاء فرماتا ہے ہمیں جب وہ ایک کے بدلے سات سو دانے دیتا ہے تو ہمیں بھی اپنے فرائض اداکرتے ہو ئے اس پاک ذات کا شکر اداکرنا چاہیے اور اس گندم سے عشر زکواة ضرور ادا کرنا چاہیے جس سے ہمارے کھیتوں میں برکت ہو گی اور انسانیت کی خدمت بھی۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک راجن پور