عورت کی عزت نامحفوظ کیوں

Woman

Woman

تحریر : میمونہ صدف
چودہ سو بر س پہلے قرآن پاک کو جب سینہ ء انسانیت پر نازل فرمایا گیا تو اس میں مرد اور عورت کے تمام حقوق و فرائض وضع کر دئیے گئے ۔ اس کے علاوہ ملک میں عورت کے حقوق پر کئی قوانین بنائے گئے ، ضابطہ اخلاق وضع کئے گئے ، بل پاس کئے گئے لیکن عورت کی عزت گذشتہ کئی برس سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو چکی ہے ۔ ریپ ا ور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو صرف روایات تک محدود کر دیا گیا ہے ۔قرآن پاک کو ثواب کا ذریعہ بنا کر اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ بھی تنزلی کا شکار ہوئی ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے انسانی سوچ کے ارتقاء کے بارے میں درست اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عورت کو آغاز انسانیت میں دیوی کا درجہ دیا گیا کیونکہ وہ نسل انسانی کے بڑھاوے کے لیے واحد ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی شعور ، سائنسی ارتقاء نے مرد کو یہ باور کروایا کہ صرف عورت ہی نہیں مرد بھی نسل انسانی میں اضافہ برابر کا حصہ دار ہے ۔ مرد کے خیالات میں تبدلی نے عورت کی حیثیت کو انسانی حیثیت سے بھی گرا دیا ۔ اس زمانہ میں عورت کی حیثیت مغربی معاشرہ میں ایک باندی سے زیادہ نہ تھی ۔ یہاں تک کہ ١٧ ویں صدی تک عورت کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تک نہ تھی ۔ عرب میں بیٹیوں کو زندہ گاڑ ھ دینا ایک عام سی بات تھی ۔

اسلام کا سورج زمینِ عرب میں چمکا ۔ اسلام نے عورت کی تعظیم و تکریم کو بحال کیا ۔ عورت کو معاشرے میں وہ حیثیت دی جس کی وہ حقدار تھی ۔ عورت کو زندہ رہنے کا حق دیا گیا۔ عورت کو اسلا م نے بحیثیت بیٹی ، بہن ، بیوی اور ماں کے حقوق وضع کر دئیے ہیں ۔ نامحرم خواتین سے برتائو تک کا طریقہ کار بھی چودہ سو سال پہلے وضع ہوچکا ہے ۔ گویا اگر صرف اور صرف اسلام پر ہی عمل کر لیا جائے تو کسی قانون ، کسی قاعدے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔صرف مردوں ہی کو نہیں عورتوں کو بھی ایک ضابطہ اخلاق دے دیا گیا ۔

اسلام کا یہ دور تبع تابعین کے بعد زوال پذیر ہوتا چلا گیا ۔ یورپ نے عورت کوصلیبی جنگوں کے بعد نیم برہنگی کا لباس دیا ۔ اسے ووٹ کا حق دیا گیا ۔ اسلامی معاشرہ یورپ سے متاثر ہوا تو یہاں بھی نام نہاد لبرلز نے عورت اور مرد کی برابری کا نعرہ لگا کر عورت کی عزت پر کمند لگائی ۔ بعض خواتین اس لبر لز م سے متاثر ہو کر بے پردگی کا لبادہ اوڑھتی چلی گئی ۔ معاشرے میں اخلاقی تنزلی نے عورتوں کو بالخصوص معاشرتی مسائل اوربے قدری سے ہمکنار کیا۔مرد کی سوچ جب پستیوں میں گری تو اس نے دوسرے کی بہن ، بیٹی کی عزت کو اپنی عزت نہ گردانا ۔

معاشرے کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو میڈیا کا عورت کو بحیثیت ایک شو پیس بنا کر دیکھانا اس کی معاشرے میںگھٹتی ہوئی قدر وقیمت کا غماز ہے ۔ یہاں تک کہ چھوٹی سی چھوٹی اشیاء کے لیے خواتین کو ماڈل بنا کر دیکھایا جاتا ہے چاہے وہ مردوں کا استعمال کرنے والا سیفٹی ریز ر ہی کیوں نہ ہو ۔ ٹی وی ڈراموں میں معاشرتی مسائل کو موضوع بنانے کی بجائے شخصی محبت کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ جس نے نوجوان ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے۔

انٹر نیٹ نے جہاں معاشرے کو بے حد آسانیاں دی وہاں آسانیوں کا منفی استعمال بھی سکھا دیا ۔ اب کسی کی بھی دوسرے تک رسائی نہایت آسان ہو چکی ہے وہاں فحا شی پر مبنی وڈیوز اور لٹریچر کی موجودگی ، نفسیاتی طور پر لوگوں کو صرف ہوس کی جانب مائل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں ۔ نہ تو ان ویب سائیٹس کی جانب کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی کبھی ان وئیب سائٹس کو بلاک کیا گیا ۔ یہاں تک کی اگر کوئی ویب سائٹ بلاک بھی کر دی جائے تو کسی نہ کسی طرح اسے چلا لیا جاتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی ان گنت پیج اور گروپ آپ کو مل جائیں گے جن کی وجہ سے وہ نوجوان جنھیں والدین کی جانب سے توجہ نہیں مل پاتی وہ ا سطرح کی برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

اس نتیجہ یہ ہوا کہ نویں جماعت کے طالب علم نے اپنی ہم جماعت کو گولی مار کر خودکشی کر لی ۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس جیسے کئی ایک واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ ان واقعات کے تدارک کے لیے ان واقعات کی وجوہات پر توجہ دینا از حد ضروری ہے ۔
آج کے اسلامی معاشروں چاہے وہ کوئی بھی ریاست ہو کا جائزہ لیجیے ! اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ مرد وزن نے اسلام کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کو فرسودہ سمجھ کر بھلا دیا ہے ۔ نہایت قلیل تعداد میں اگر کوئی اس ضابطہ اخلاق کو اپنانا چاہے تو اس کے لیے اتنی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ وہ ان مشکلات سے گبھرا کر اس ضابطہ اخلاق کو چھوڑ دیتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کے حقوق ی قرآن و حدیث میں تفصیل کا موجود ہونا ، ملکی قوانین میں عورت کے حقوق کے بلوں کا پاس ہونا عورت کی عزت کو محفوظ کیوں نہیں کر پایا ؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں پنپتی ہو ئی منفی سوچ ہے ۔ ہم اپنے جوانوں کو یہ سیکھا ہی نہیں رہے کہ گھر سے باہر کی عورت بجی عزت رکھتی ہے اور اگر کسی دوسرے کی بہن بیٹی کے ساتھ کھلواڑ خود ان کی بہن بیٹی کو اس خراج کا حقدار بنا سکتی ہے۔

اگر ہمیں معاشرے میں عورت کی عزت کو بحال کرنے کے لیے اجتماعی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ہر شخص کو اپنی سطح پر رہ کر کام کرنا ہو گا ۔ اسلام کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کو ملک میں رائج کرنے کے لیے مردوزن دونوں کو کردار ادا کرنا ہو گا ۔قانون بنا دینا ، بل پاس کروا لینا کافی نہیں بلکہ عملا عورت کی عزت کو بحال کر نا ہو گا ۔عورت کو شوپیس نہیں بلکہ اس کی اصل حیثیت دینا ہو گی۔

Maemuna Sadaf

Maemuna Sadaf

تحریر : میمونہ صدف