خواتین کے تحفظ بارے قانون پر ابھی بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا: سیمل راجہ

Seemal Raja

Seemal Raja

لاہور (سٹاف رپورٹر) پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آج ورکنگ ویمن یعنی ملازمت پیشہ خواتین کا منایا جارہا ہے جس کا مقصد اقتصادی ترقی میں خواتین کے کردار کو اجاگرکرنااور ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کو درپیش مسائل بارے آگاہی پیدا کرنا ہے اس دن کی مناسبت سے خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم نیو ہوپ ویلفئیرآرگنائزیشن کی چئیرپرسن و سابق رکن پنجاب اسمبلی سیمل راجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیت اور محنت کے ذریعے تعلیم، صحت اور کھیل کے میدان سمیت مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو نمایاں کیا مگر ان کے حقوق کے تحفظ بالخصوص ورکنگ وومن کے لیے جائے کار کو موافق بنانے کے لیے قانون سازی پر موثر عملدرآمد سے نہ ہونے کے باعث حالات جوں کے توں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ویمن ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2012ء منظور ہوا جسکے تحت تمام اداروں میں کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ضابطہ اخلاق بنانے اور کام کی جگہ پر تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیاگیا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے قانون بننے کے باوجود اسکا اطلاق کہیں نظر نہ آیا۔ کسی بھی سرکاری یانجی ادارے میں کسی کمیٹی کا وجود ہی نہیں ۔ا نہوں نے کہا کہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے اور نئے قوانین بناکر ہی خواتین کو ترقی کے دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن پر دشنام طرازیاں کرتے پڑھے لکھے طالبان مائنڈ سیٹ والے خود ساختہ دانشورو دیگر سب عورت کو کمزور ثابت کرنے کیلئے مذہب ،روایات ، ثقافت کے نام پر خواتین کا استحصال کر رہے ہیں ۔انہوں نے مزیدکہا کہ دنیا بھر میں خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر دن منانے کا مقصد عورت کی دنیا میں خدمات کا اعتراف اور اس کے وجود کی کسی بھی دوسرے ذی روح جتنی ہی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔مگر ہمارے معاشرے میں بچی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے جنازے تک قدم قدم پرپردہ،غیر،مذہب او رروایات کے نام پر اس کے احساسات اور خیالات کی نفی کی جاتی ہے۔

آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں عورت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پیدا ہوتے ہی اس کے دماغ میں یہ بات گھسا دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد نسل انسانی کی افزائش کے مقصد کے حصول میں مرد کی باندی بن کر جینا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عورتوں نے بے پناہ مسائل کے باوجود اپنی حقوق کی لڑائی لڑ ی ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ عورت اس وقت تک کمزور ہے جب تک وہ خود کو کمزور سمجھتی رہے گی۔ معاشرے میں موجود منافقانہ طرز عمل اور سوچ کے باعث اکیسویں صدی میں بھی عورت معاشرے میں پیچھے دکھیل دی جاتی ہے۔معاشرے میں افراد کی سوچ میں ہم آہنگی اورمردوزن کی تفریق کے بغیر اس کا حق دینے سے ہی معاشرے میں سدھار ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خواتین ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے باجود اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اسمبلی مدت کے دوران ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے قانون سازی ن کروا کر ان کو ان کا جائز حق دلوانے اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو روکنے کے لئے The In House Working Women Protection Bill 2010 پیش کیا ۔ مگر حکومتوں کے بدلتے ہوئے سیاسی مزاج کے باعث اس پر قانون سازی نہ ہو سکی ۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا پہیہ خواتین کی شرکت کے بنا نہیں چل سکتا،گھروں میں کام کر کے اپنے کنبے پالنے والی خواتین کو ورکر بھی نہیں سمجھا جاتا،صحت،پینشن و دیگر حقوق سے محروم رکھ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔