خواتین اساتذہ کی تعیناتی، ایک اور مذاق

Women Teachers

Women Teachers

تحریر : وقار احمد اعوان
شنید ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے رواں سال سامنے آنے والے تجویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے صوبہ کے سرکاری پرائمری سکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اس حوالے صوبہ کی ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جنوری میں دی جانے والی تجویز کو روا ں ہفتے منظور کر دیا ہے، جس کے تحت اب سرکاری پرائمری سکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کوہی بھرتی کیا جائے گا۔ایلیمنٹری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صوبہ میں 23ہزار پرائمری سکول ہیں،جن میں 72110 اساتذہ اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں، جن میں 45525 مرداساتذہ جبکہ 26585 خواتین ٹیچر زہیں۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے میڈیا ایڈوائزر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صوبائی کیبنٹ جس کی سربراہی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کررہے تھے نے اس تجویز کومنظورکرلیاہے۔خیبرپختونخوا حکومت ماڈرن ایجوکیشن کے لئے 14ہزار ٹیچرز بھرتی کرے گی۔ترجمان کے مطابق نئے تعلیمی سال جو رواں ماہ شروع ہو رہا ہے۔

پہلے ڈیپارٹمنٹ خواتین ٹیچر ز کی بھرتیاں شروع کرے گا،ترجمان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری سکولوں میںخواتین ٹیچرز ہوتی ہیں اوربچے مرد ٹیچرز کی بجائے خواتین ٹیچرز کے ساتھ خوش رہتے ہیں،کیونکہ خواتین ٹیچرز بچوںکو پیار کے ساتھ ایساماحول دیتی ہیں جس سے بچے سکول ریگولر آنا پسند کرتے ہیں۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کے مطابق برطانیہ کے پرائمری سکولوں میں88فیصد خواتین جبکہ 12فیصد مرد ٹیچرز ہیں۔ اور اس حوالے صوبائی حکومت آئندہ سال سے صوبہ بھر کے تمام سرکاری سکولوںمیں مرحلہ وار خواتین اساتذہ تعینات کرے گی،جس کے بعد آئندہ مرحلہ وار صوبہ بھر کے تمام پرائمری سکولوںمیں خواتین اساتذہ کوتعینات کیا جائے گا۔ہرچند کہ مذکورہ فیصلہ ترقی یافتہ ممالک کے شرح خواندگی کوسامنے رکھتے ہوئے کیا گیا تاہم ان تمام مشکلات کو بھی ملحوظ خاص رکھنا ہوگا جو خواتین اساتذہ کی تعیناتی سے رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔جیسے ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے،گوکہ یہاں اسلامی تعلیمات پر اس طرح عمل نہیں ہورہامگر پھر بھی معاشرہ میں خواتین کے پردے کا خاص طورسے خیال رکھا جاتا ہے۔چونکہ تعیناتی مرحلہ وار ہے اس لئے پرائمری سکولوں سے مرد اساتذہ کی ریٹائرمنٹ میں بیس سے پچیس سال کاطویل انتظار کرنا پڑے گا۔ اور جس سے معاشرے کے بگاڑ کا ایک نیا اور آسان راستہ کھل جانے کاامکان ہے۔

ایک ہی سکول میں مرد خواتین کے ہونے سے زیر تعلیم بچوں پر بھی برااثر پڑسکتاہے،ہرسال ہونے والے سالانہ امتحانات کہ جن میں میٹرک ،انٹرمیڈیٹ ،بی اے ،ایم اے اور اسی طرح کے دیگر پر خواتین اساتذہ کی ڈیوٹیاں نقل اور بدمزگی پیدا کرنے میںکوئی یکسر باقی نہ چھوڑیںگے۔ا س کے علاوہ اکثر اوقات محکمہ تعلیم کی جانب سکول نہ جانے والے بچوںکے سروے میں بھی خواتین کا شامل ہونا ٹائم پاس کے برابر ہوگا۔اور یوں تعلیم کے ساتھ کھلواڑ عملی صورت اختیار کرجائے گا۔حالانکہ ایسے اقدامات کی بجائے کچھ ایسا بھی کیا جاسکتاتھا،جیسے نرسری ،اول اوردوئم تک کے بچوںکو گرلز سکولوںمیں خواتین اساتذہ کی نگرانی میں رکھا جائے،جیسا کہ ترجمان کہتے ہیں کہ ترقیاتی ممالک میں خواتین اساتذہ مردوںکے مقابلے میںزیادہ ہیں لیکن جناب ایسا کب فرمائیںگے کہ ہمارے ہاں گرلز پرائمری سکولوںکی صورتحال کیاہے،قوم کو تصویر کا ایک رخ دکھانا ہمارے سیاستدانوں کا پرانا شوق ہے ،اسی طرح تعلیم کے ساتھ کھلواڑ بھی کوئی نئی بات نہیں،جب جب ہمارے نام نہاد سیاستدانوں کو منہ کی کھانی پڑجاتی ہے تب تب انہیں محکمہ تعلیم کے سدھار کی سوجتی ہے حالانکہ کئی ایسے اقدامات ہیں کہ جن کی تکمیل سے تعلیم شرح کو بہتر بنایا جاسکتاہے،بجائے اس کے اسے مزید کھوکھلا کردیا جائے۔

صوبائی حکومت کے مطابق ہمیں اپنی شرح ترقی یافتہ ممالک کے برابر کرنی ہے ،سو بار کیجیے مگر جناب پہلے ترقی یافتہ ممالک کے جیسے استاد کو عزت واحترام تو دیا جائے ،جیسے گزشتہ صوبہ بھرکے لاکھوں معلمین نے صوبائی اسمبلی کے سامنے اپنے جائز مطالبات کے حق میں دھرنا دیا ،لیکن بجائے ان کے مطالبات سننے کے ان کے خلاف کاروائی کرکے انہیں مزید ذہنی کوفت میںمبتلا کردیا۔گھنٹوں ٹریفک معطل رہی مگر کسی صاحب نے آکر بے چارے معلمین کی سننا گوارانہیں کی۔

صوبائی حکومت اگر صوبہ میں ماڈرن ایجوکیشن سسٹم لانے کی خواہاں ہے تو اس سے قبل استاد کو کسی بھی کالج یایونیورسٹی کے پروفیسر کے مطابق گریڈ دے ،کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی بجا نہیں کرتی۔صوبائی حکومت اگر تعلیمی شرح کوحقیقتاً بہتر کرنا چاہتی ہے تو اسے ضروربالضرور استاد کو اس کاجائز مقام دینا ہوگا۔ہمارے ہاں یہ راگ الاپا جاتاہے کہ استاد کام نہیں کرتا ،مگر جناب ہمارے اذہان میںیہ بات کیوںنہیں آتی کہ ہمارے ہاں استادکو ماہوار صرف 20سے25ہزار اجرت مل پاتی ہے،مانا کہ سینئرزاساتذہ کی تنخواہیں 50ہزارتک ہیں،لیکن ان کی تعداد آٹے میںنمک برابر ہے۔صوبائی حکومت اگر واقعی میں تعلیمی شرح بہتر کرنے کی خواہاںہے تو اول استاد کو گریڈ سترہ دے،اسی طرح دیگر الائونسز دے کر اسے معاشی طورپر مستحکم بنائے تب جاکر شرح خواندگی کی باتیں بھی بھلی معلوم ہونگی اورساتھ شرح خواندگی بہتر بھی ہوجائے گی۔ہم اپنی شرح خواندگی ترقی یافتہ ممالک سے تبھی ملا پائیں گے جب ہمارا استاد وہاںکے استادکی طرح معاشی طورمستحکم ہوگا ۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت فی الفور اساتذہ کے مسائل حل کرے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان