باتیں مخص باتیں

Election Campaign

Election Campaign

تحریر : طیبہ اسلم
باتیں کرنا ایک اچھا عمل ہے مگر بعض اوقات مخص باتیں کرتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا انسان کو ان باتوں کو عملی جامہ پہنانا بھی ضروری ہے ھمارے معاشرے میںا چھا بولنا اور لوگوں کو شیشے میں اتارنا تو سب کو ہی آتا ہے مگر لوگوں کے دلوں میں ان باتوں اور وعدوں کو پورا کر کے جگہ بنانا ہر کسی کو نہیں آتا ……..یہی حال ھمارے ملک میں الیکشن کے وقت ہوتا ہے وہ لوگ جو کبھی کسی سے بات تک نہیں کرتے وہ رہنماں اور پارٹی عہدیدار اپنے لیڈر کے ساتھ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں لاکھوں روپے خرچ کر کے جلسے جلوسوں اور تقاریر کا اہتمام کرتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کر کے لوگوں کے دل ودماغ کواپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔

ھماری عوام بھی ایسی ہے کہ جو کوئی دو میٹھے الفاظ بول دے بس دنیا اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور اس انسان سے اچھا اور سچا انسان اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا ھمارے معاشرے کے لوگوں کو اگر سادہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ھمارے معاشرے کے افراد ہر اس جگہ اپنی سادگی اور بھولے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں جہاں ا ن کو سوچ سمجھ کر اور عقل مندی سے فیصلہ کر نیکی ضرورت ہوتی ہے شاید ھمارے ہاں لوگوں کو اتنا شعور نہیں ہے کیونکہ ھمارے ہاں تعلیم کا معیار نہ تو تعمیرانہ ہے اور نہ ہی لوگ ذیادہ پڑھے لکھے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

ذیادہ تر دیہاتوں کے رہنے والے لوگ سادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صرف باتوں پر ہی ووٹ دے دیتے ہیں کہ جو کہا جا رہا ہے اور جو وعدے ان سے کیے جا رہے ہیں وہ سب الیکشن جیتنے کے بعد حکمران ضرور پورے کریں گے ان کے تمام مسائل کو حل کیا جائے گا ان کے ہاں خوشحالی آئے گی ان کے بچوں کو نوکریا ں دی جائیں گی وغیرہ وغیرہ ۔لوگوں کے الیکشن سے پہلے یہی تو سیدھے سا دے مطالبات ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کے ہر پارٹی ان سے وعدے اور دعوے کرتی نظر آتی ہے پاکستان کی یہ بد قسمتی کہہ لیں کہ بہت عرصہ اس پر ڈکٹیٹر نے حکومت کی ہے۔

پاکستان کو بنے کم وبیش پندرہ سولہ سال ہوئے تھے کہ پہلی بار مارشل لاء لگ گیا پھر کافی عرصہ مارشل لاء رہنے کے بعد عوامی حکومت آئی مگر عوامی حکومت کو ذیادہ عرصہ عوام کی خدمت کرنے کا موقع کسی ڈکٹیٹر نے نہیں َُُُْٔۖ دیا ۔ ٢٠٠٠ میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں مارشل لاء نافذ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ کیا تقریباََآٹھ سال تک پاکستان پر ڈکٹیٹر شپ رہی پھر عام انتحابات ٨ فروری ٢٠٠٨ء کو ہونا قرار پائے ۔ مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور ایسی مزید جماعتو نے الیکشینز میں حصہ لیا جگہ جگہ جلسے جلوس کئے گئے لوگوں کو جنرل صدر پرویز مشرف کے خلاف کیا گیا مزید جذباتی باتیں کر کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کی گئیںمگر پھر کیا ہوا۔

Election

Election

الیکشن کے بعد معلوم ہوا کہ وہ وعدہ وہ قسمیں مخص باتیں ہی تھیں جو لیڈرز لوگوں کے گھروں میں جا جا کر وعدے کرتے تھے کر بس ووٹ دیں اور پھر دیکھیں ہم آپ کے لیے کیا کیا کام نہیں کر تے جو نا انصافیاں سابقہ حکومت کے کی ہیں ہم اُن کی تلافی کریں گے مگر پھر عہدوں پر نافذ ہو جانے کے بعد اِن لوگوں کے پاس جانا تو دور کی بات ہے اِن کے مسائل کی طرف توجہ دینے اور اِن کی دادرسی کرنے پر کوئی تیار نہیں ہوتا اپنے دفتروں کے دروازے اِن پر ایسے بند کر دیئے جاتے ہیں جیسے وہ بھیک مانگنے والے ہوں ۔ ٢٠٠٨ء سے شروع ہونے والے عوامی حکومت کا پہلا دور ٢٠١٣ء میں ختم ہوا اور پھر الیکشن کا ہنگامہ اور ایک بار پھر وہی وعدوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس بار پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی جماعت کے طور پر اُبھر کے سامنے آئی اور پورے ملک میں اپنے اُمیدوار الیکشن میں کھڑے کییاور اپنے جلسوں میں بڑے بڑے وعدے اور دعوے کرتی نظر آئی ۔مئی ٢٠١٣ء کو عام انتحابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔

موجودہ پرائم منسٹر نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بنانے کے لیے قانون میں تر میم بھی کر لی گئی اس بار انتخابات میں کچھ یوں ہوا کہ حکومت تو پی ایم ایل این بنانے میں کامیاب ہو گئی مگر پیپلز پارٹی نے سندھ میں صوبائی حکومت بنا لی جو پیپلز پارٹی کا گھر سمجھا جاتا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف نے کے۔پی ۔کے میں حکومت بنائی اور مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں جو کہ ان جماعتوں کے بِل سنجھے جاتے ہیں ۔باقول مختلف صوبائی جماعتوں کے ھمیں تو حکومت فنڈز ہی نہیں دے رہی ہم کیسے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں ۔سی۔ایم پنجاب شہباز شریف نے پنجاب کی فلاح و بہبود کیلیے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کو تکمیل تک پہنچایا ہے کے۔پی۔کے کی عوام بھی اپنی صوبائی حکومت کے بارے میں کچھ حد تک مثبت رویہ رکھتی ہے کچھ ایسا ہی حال سندھ کی صوبائی حکومت کا ہے۔

لوگوں کا اپنی اپنی صوبائی حکومتوں سے مطمئن ہونا اةم ضرور ہے مگر وہ لوگ جو ان صوبوں کے دوردراز علاقوں میں رہتے ہیں جہاں نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں نہ ہی ترسیل کا ہی کوئی خاص ذرئع ہے ۔جہاں نہ بچوں کے لیے سکول ہیں نہ ہی ہسپتالوں میں علاج کے لیے بہتر انتظامات ۔جب ووٹس لینے کی بات آتی ہے تو وہاں ہر پارٹی کے عہدیدار پہنچ جاتے ہیں مگر جب اُن کی ترقی اور فلاح کے کام کرنے کی بات آتی ہے تو سب کے ضمیر سو جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کا خلوص اور اُ ن کے دیئے ہوئے ووٹوں کا کوئی پاس نہیں رکھا جاتا اور مشکل کی گھڑی میں ان لوگوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اپنا کام نکا لنے کے بعد وہ لوگ گوار اور بد لحاظ وبد تمیز لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔

Politics Parties

Politics Parties

اچھا لیڈر بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیںہے۔اچھا لیڈر بننے کے لیے سب سے پہلے دنیا کے بہترین لیڈر حضرت محمدۖۖکی حیات مبارکہ کا مطالعہ اور اس سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرنا بہت ضروری ہے ہم ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہیں ۔ہمارے قول وفعل میں یگانگت ہونی چاہیے۔مخص باتیں تو ہر زبان والا کر سکتا ہے مگر رہنماؤں کا یہ شیواء نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مفاد کے لیے باتیں کر لیں اور بعد میں لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ اِن کی باتیں مخص باتیں تھیں اور کچھ بھی نہیں۔

تحریر : طیبہ اسلم