اپنے لفظوں میں بیاں پیدا کر

اپنے لفظوں میں بیاں پیدا کر
کھوئی جنبش میں نشاں پیدا کر
جذبوں کو سمیٹ کر زباں پر لا
کوئی جادو اثر سماں پیدا کر
کبھی قدموں میں نہ لرزش آئے
حوصلوں کا طوفان پیدا کر
آرام طلبی کچھ دیر بھلا کر رکھ
دل میں برداشت کی خزاں پیدا کر
مزا تب ہے باتوں سے خو شبو آئے
حسیں پھولو ں کا جہاں پیدا کر
نہ جا آسماں کی طرف فضائوں میں
زمیں پہ کوئی آسمان پیدا کر
پگھل جائے باتوں سے آدمی ساگر
بات میں اثر زبان پیدا کر

Shakeel Sagar

Shakeel Sagar

شکیل ساگر