غضب کے دھوکوں کی عجب کہانی

Shoaib Ahmed Sheikh

Shoaib Ahmed Sheikh

تحریر: سید انور محمود
خودستائی کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا، لیکن آج خودستائی عیب نہیں بلکہ ہنر سمجھی جاتی ہے جس میں ایک بڑبولا اپنی ذات کے جھوٹے سچے قصیدے جگہ جگہ سناتا ہے اور جناب ستم ظریفی یہ ہے کہ جن کو وہ سنارہا ہوتا ہے وہ تالیاں بجارہے ہوتے ہیں، کسی نے سچ کہا ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکا نہیں رہے گا۔

یہ بھی حقیقت ہے وہ سب جو قصیدہ گوئی پر تالیاں بجا رہے ہوتے وہ سارئے بیوقوف نہیں ہوتے بلکہ اُن میں بہت سے تالیاں بجاکراپنی خودستائی کرنے والے کو بیوقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں دو کردار سامنے آتے ہیں، پہلا کردار ہے ایگزیکٹ کمپنی اور بول چینل کے سربراہ شعیب احمد شیخ کا جس کا دعوی تھا کہ وہ بل گیٹس سے بھی زیادہ امیر آدمی بننا چاہتے ہیں اور جب نیویارک ٹائمزنے ‘ایگزیکٹ’ کے بارے میں لکھا کہ یہ کمپنی عالمی سطح پر بڑے تعلیمی فراڈ میں ملوث ہے، یہ آئی ٹی بزنس کی آڑ میں جعلی ڈگریوں کا دھندا کرتی ہے، پاکستان میں‘ایگزیکٹ’ کے خلاف حکومتی ادارئے حرکت میں آچکے تھے تب بھی خود ستائی کے عیب میں مبتلا شعیب احمدشیخ نے اپنے ادارئے کے ایک اجلاس میں یکم رمضان سے بول چینل شروع کرنے کا اعلان کیا تو اجلاس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے تالیاں بجایں، تالیاں بجانے والوں میں دوسرئے کردار بول چینل کے سابق صدر اور ایڈیٹر انچیف کامران خان بھی شامل تھے، جنہوں نے ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف تحقیقات کیلئے انٹرپول اور ایف بی آئی کی شمولیت کی خبر کے بعد نہ صرف یہ کہ استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا بلکہ ایک اخباری خبر کے مطابق اپنے سابق ادارے جیو میں واپسی کیلئے گفتگو کا آغاز بھی کردیا تھا۔

ایگزیکٹ کمپنی اور بول چینل کے سربراہ شعیب احمدشیخ کوتو جعلی ڈگریاں بیچنے اور تعلیمی فراڈ کے جرم میں ایف آئی اے نے باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا ہے، اب اُن پر کیس چلے گا کب فیصلہ ہوگا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن نیویارک ٹائمزمیں ‘ایگزیکٹ’ کے تعلیمی فراڈکی خبر آنے کے بعدسے بڑئے بڑئے نامی گرامی صحافی حضرات بیچ چوراہےپرایک دوسرئے کے گندے کپڑے دھورہے ہیں۔ دوسروں کے عللاوہ سب سے زیادہ گندئے کپڑئے ’غضب کرپشن کی عجب کہانی‘ کے موجد کامران خان کے ہیں۔

Exact

Exact

کامران خان کا شمار ایسے صحافیوں میں کیا جاتا ہے جو کسی بھی قسم کی اور خاصکر کرپشن کے بارئےکوئی رپورٹ شایع کرنے سے پہلے اس کی مکمل تحقیقات کرتے ہیں لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ کیا اُنکوایگزیکٹ کمپنی اور بول چینل کے سربراہ شعیب احمدشیخ کے جعلی ڈگریاں بیچنے اور تعلیمی فراڈ کے بارئے میں بلکل علم نہیں تھا، یقیناتھا، لیکن پیسہ تو اچھے اچھوں کا ایمان خرید لیتا ہے۔19 اپریل 2014ءکو جب جیو نیوز کے اینکر حامد میر پر کراچی آمد کے فورا بعد جان لیوا حملہ ہوا تو اس حادثہ کےصرف ایک گھنٹہ کے اندر ہی بغیر کسی ثبوت یا تحقیقات کے جیونیوز نے اس حملے کےلیے آئی ایس آئی پر الزام لگادیا گیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر مستقل جیو نیوز پر ایک مجرم کی حیثیت سے دکھائی جاتی رہی۔ افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے جیو کے خلاف کارروائی کی اور عوام نے جیو نیوز کا بائیکاٹ کردیا۔ کامران خان کےلیے یہ ہی سنہری موقعہ تھا جنگ اور جیو نیوز کو چھوڑنے کاجہاں اُنہوں نے 32 سال سے زیادہ کام کیا تھا۔

نیویارک ٹائمزمیں ‘ایگزیکٹ’ کے تعلیمی فراڈ کی خبر پاکستانی میڈیا کےلیے شاید اس سال کی سب سے بڑی خبرہے اُسکی سب سے بڑی وجہ بول چینل ہے کیونکہ بول چینل جو تنخوا یں اور مراعات اپنے ملازمین کو دئے رہا تھا اسکی وجہ سے دوسرئے چینلوں کے مالکان بہت پریشان تھے اور دوسری طرف وہ صحافی بھی پریشان تھے جو بول چینل کے آنے سے اپنی مارکیٹ ویلو کو خطرئے میں محسوس کررہے تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ حامد میر اور سیدطلعت حسین نے اپنے اپنے پروگرام میں اپنے سوالات کے زریعے کامران خان کو دھوڈالا، جبکہ ایک اخبار کے مطابق سیدطلعت حسین نے تو قصایوں والا کام کیا اور اپنے سوالات سے کامران خان کو زبح کرڈالا۔ کامران خان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، اس بات کا جواب دینے کے بجائے کامران خان نے اپنے سابقہ ادارئے اورسید طلعت حسین پر الزامات لگانے شروع کردیے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ایگزیکٹ کیس میں قانونی مدد کے لیے ایک سے دو روز میں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا تو اُسکے فورا بعد ہی کامران خان نے بول چینل سے علیدگی کا اعلان کردیا، پچھلے شایدسوا سال میں کامران خان نے کیپٹن ہوتے ہوئے دوسرئے ڈوبتے ہوئے جہازمیں اپنے ساتھیوں کو چھوڑکر جہاز سے باہر کود کر اپنی جان بچائی ہے۔

Bol Channel

Bol Channel

ایک اخبار کے مطابق جیو ٹیلی ویژن کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران خان اور اظہر عباس بول چینل کے حقیقی سکرپٹ رائٹر ہیں اور انہوں نے ہی ایگزیکٹ کے مالکان کو نیا چینل شروع کرنے پر اکسایا جس کا ثبوت ایگزیکٹ کے چیئرمین شعیب احمد شیخ کی ایک ویڈیو تقریر میں بھی ملتا ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایگزیکٹ نے جب بول شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی پہلی میٹنگ میں کامران خان اور اظہر عباس شامل تھے۔ کامران خان اور اظہر عباس بڑی بڑی رقموں کی پیشکش کرکے جیو کے مختلف سیکشنوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو بول چینل میں لے گئے جن کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔ آج یہ انہیں چھوڑ کر بول چینل سے علیدہ ہوچکے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ کارکن جن کی تنخواہیں ان کے گھر چلانے میں کام آتی تھیں ان کا پورا مستقبل داوُ پر لگ چکا ہے اور یہ نامور اور بڑئے صحافی بول چینل سے بھی کم از کم 20, 20 کروڑ روپے نقد اور دیگر مراعات و سہولیات لے کر دوسروں کو دھوکا دیکراب اخلاقیات اور قانون کا درس دئے رہے ہیں۔

کرپشن ہمارئے ملک میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے، اور آپ جس شعبہ کو چاہیں چیک کرلیں آپ کو ایسا لگے گا کہ شاید سب سے زیادہ کرپشن اس شعبے میں ہی ہورہی ہے، پاکستان میں پرایئویٹ چینل کھلنے کےبعدمیڈیا میں بہت زیادہ کرپشن آئی ہے، ہر ایک صحافت کے نام لوٹ مار کررہا ہے، چینلوں کے مالکان کو اس سے غرض نہیں کہ کس خبر سے ملک کو نقصان ہوگا، اُنہیں صرف ریٹنگ بڑھانے سے مطلب ہے تاکہ زیادہ اشتہار اور زیادہ پیسہ ملے۔ ہر روز شام کو نامورصحافی اپنے اپنے چینل پر حالات حاضرہ کی دوکان سجاکردوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں جبکہ ان میں اکثریت خود کرپٹ ہیں۔ اینکر عاصمہ شیرازی نے سرکاری خرچ پر حج کیا اور جب اُس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ سرکاری خرچے پر حج کرنے کی حقدار ہے تواسکا جواب تھا اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نصرت جاوید جس کا کبھی یہ دعوی تها کہ وہ لفافے کے قریب بهی نہیں پهٹکتا، اب حکومتی کیمپ جوائن کرلیا ہے۔سید طلعت حسین نے نواز شریف کا ایک ایسا انٹرویو کیا جس میں سوالات بهی پہلے سے تیار کردہ تهے اور جواب نواز شریف اپنے مینجرز سے پوچھ کر دیا کرتے تهے اور اس ایماندار انٹرویو کا ذکر سید طلعت حسین نےخود ایک نجی محفل میں کیا۔

اور بھی بہت کچھ ہے لیکن مضمون کی طوالت اب اجازت نہیں دئے رہی ہے لہذاباقی پھر کبھی آئندہ، ہاں آخر میں ’غضب کرپشن کی عجب کہانی‘ کے موجد کامران خان سے صرف اتنا کہنا ہے کہ وہ جب بھی کسی چینل پر کوئی پروگرام کریں تو پروگرام کا نام تبدیل کرکے’غضب کے دھوکوں کی عجب کہانی‘ رکھ لیں اور اس میں اگر سب سے پہلے اپنے دھوکوں کی کہانی بیان کرینگے تو وہ یقین کریں اُنکے چینل کی ریٹنگ توقعات سے بہت زیادہ ہوگی، ریٹنگ بڑھے گی تو چینل کی آمدنی بڑھے گی اور اُس آمدنی سے کامران خان کو بھی حصہ ملے گا۔ کامران خان آپ نے یقینا بول چینل سے مختصر عرصے میں بہت پیسہ حاصل کیا ہے لیکن آپ اپنی عزت بول میں ہی چھوڑ آئے کیونکہ اب آپ واپس جیو میں جایں یا کسی اور چینل پر نظر آیں آپکو آپکے ناظرین کی طرف سےعزت نہیں ملے گی۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود

Shoaib Ahmed Sheikh

Shoaib Ahmed Sheikh