میں نے سنا ہے گزرے سال

میں نے سنا ہے گزرے سال
جب عشق کی پوجا ہوتی تھی
دیتے تھے قربانی سارے
لوگ بیگانے خون سے
اپنے لاکھ ہوں کیوں نہ دشمن
واقف کب یہ ہو پاتے ہیں
لوگ بیگانے خون سے
جلنے لگتی ہیں دیواریں
جب محبوب کی گلیوں میں
آ جاتے ہیں پاگل پریمی
آگ بجھانے خون سے
کوئی ایک دیوانہ ساگر
کرتا ہے جو کہتا ہے
ورنہ یوں تو خط لکھتے ہیں
لاکھ دیوانے خون سے

Shakeel Sagar

Shakeel Sagar

شکیل ساگر