تیس برسوں سے ہونے والا فراڈ

Petrol

Petrol

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
کچھ دن پہلے ہم نے کہیں جانا تھا تو میرے میاں نے چھوٹی گاڑی نکالی غالباً اس کی پیٹرول بتانے والی سوئی کچھ مسلہ کر رہی تھی تو اس کو چیک کرنے کے لیے انہوں نے پیٹرول پمپ پر گاڑی روکی اور لڑکے سے کہا ایک لیٹر پیٹرول ڈال دو عام طور پر ہم پانچ سو ،ہزار ،دو ہزار تک کا پیٹرول ڈلواتے ہیں اس لیے ہمیں اس مسلے کا احساس نہیں ہوتااس روز سوئی چیک کرنے کے لیے ایک لیٹر پیٹرول ڈلوایا تو اس نے 100 روپے میں سے سینتیس روپے واپس کیے میرے میاں جانے کس موڈ میں تھے کہنے لگے پیسے بھی دو وہ کہنے لگا صاحب پیسے کے سکے کہاں ہوتے ہیں اس لیے ہم تریسٹھ روپے ہی لیتے ہیں اب چھوڑ بھی دو چند پیسوں کے لیے ٹہر گئے ہو میں نے ناگوار ی سے کہا تو میرے میاں بڑبڑاتے ہوئے چل پڑے نہ جانے یہ سارے دن میں کتنا پیسہ جمع کر لیتے ہونگے ہر کوئی تو ہزاروں میں پیٹرول نہیں ڈلواتا اکثر موٹر سائیکلوں والے لیٹر ہی ڈلواتے ہیں خیر بات آئی گئی ہو گی آج میرا ایک آن لائن پارسل آیا جس کو میں نے 56 سو75 روپے ادا کرنے تھے میں نے میاں کو 5700 دیے کہ پوسٹ مین سے پچیس روپے بقایا لے لینا تھوڑی دیر بعد خالی پارسل لے کے آئے میں نے پوچھا بقایا پچیس روپے کہنے لگے اس کے پاس کھلے نہیں تھے میں نے کہا جانے دو ،اس دن میرے پر تو غصے ہو رہی تھیں، ماشا اللہ کہاں 30 پیسے اور کہاں پچیس روپے میرے پیسوں پہ حاتم طائی بن گئے؟۔

مجھے سخت کوفت ہوئی کیونکہ اکثرآن لائن شاپنگ کا یہی مسلہ ہوتا ہے یہ ہر چیز میں پیسوں کی پخ لگا دیتے ہیں جو چاہے کوریئر والے ہوں چاہے پوسٹ مین بقایا کبھی واپس نہیں کرتے مجھے اس دن والی میاں کی بات بھی یاد آ گئی کہ پیسہ پیسہ کر کے جانے کتنے کروڑوں کما لیتے ہونگے یہ بیماری شوز کی دکانوں پر عام ہے 99پیسے یا95روپے ہر فگر کے ساتھ شامل ہوتے ہیں جو قیمت لیتے وقت وہ کبھی واپس نہیں کرتے جبکہ برانڈز والوں نے تو ٹافیاں رکھی ہوتی ہیں جو وہ بقایا کے بدلے تھما دیتے ہیں میں نے سوچا آج اس موضوع پر بھی لکھا جائے نیٹ سرچنگ کے دوران مجھے کچھ مزید مواد بھی مل گیا سوچنے بیٹھو تو دروازے کھلتے ہی چلے جاتے ہیں ہم سوچنے والی قوم ہی نہیں ہیں لیکن باہر کے ملکوں میں ایسے فراڈ چھپے نہیں رہتے۔

یہ نوجوان لندن کے ایک بنک میں معمولی سا کیشئر تھا اس نے بنک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا وہ کمپیوٹر کی مدد سے بنک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکائونٹس سے ایک ایک پینی نکال لیتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکائونٹ میں ڈال دیتاتھا وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائینٹس کے اکائونٹس سے کئی ملیئن پونڈ چرا لیے آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا یہ یہودی تاجر اپنی بنک سٹیٹ منٹ کئی ماہ تک واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے بنک اکائونٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے اس کی شکایت لے کر وہ بنک منیجر کے پاس گیا بنک منیجر نے اس کی بات سن کر ایک قہقہہ لگایا اور اپنی دراز سے ایک پونڈ نکال کر اس کو دیا کہ لیجیے جناب آپ کا نقصان پورا ہو گیا یہودی تاجر کو اس پر بہت غصہ آیا اس نے بنک منیجر کو ڈانٹ کر کہا میرے پاس بہت دولت ہے لیکن میں آپ لوگوں کو آپکے سسٹم کی کمزوری دکھانا چاہتا تھا یہ کہہ کر وہ اٹھا اور بنک سے نکل گیا تاجر کے چلے جانے کے بعد بنک منیجر کو شکایت کی سنگینی کا احساس ہوا اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست ثابت ہوئی یوں وہ نوجوان پکڑا گیا یہ تو لندن کا فراڈ تھا۔

Fraud

Fraud

ایسا ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے اور کئی برسوں سے ہو رہا ہے اس فراڈ کا تعلق پیسے کے سکے سے جڑا ہے پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948کو لانچ کی گئی تھی اس کرنسی میں چھ سکے تھے ایک روپے کا سکہ،اٹھنی، چونی،دوانی، اکنی،ادھنا اور پائی شامل تھے اس زمانے میں ایک روپیہ سولہ آنے اور 64پیسوں کے برابر تھا یہ سکے یکم جنوری 1961تک چلتے رہے 1961میں صدر ایوب خان نے ملک میں اعشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد یہ روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی ،چونی،دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے ،پچیس پیسے،دس پیسے ،پانچ پیسے اور ایک پیسہ کے سکے رائج ہو گئے جو کہ جنرل ضیا الحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعد ازاں ؤہستہ وآہستہ ختم ہو گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے پچھلے تیس برسوں سے ہم نے دس پیسے پچیس پیسے پچاس پیسے اور ایک پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا کیوں؟کیونکہ سٹیٹ بنک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہا لیکن آپ حکومت کا کمال دیکھے وہ جب بھی پیٹرول،بجلی اور گیس کی قیمت بڑھاتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل ہوتے ہیں مثلاً آپ پیٹرول کے تازہ ترین اضافے کو ہی لے لیجئے حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے بانوے پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پیٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے،ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے65پیسیاور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے94پیسے ہو گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں لہذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے گا تو کیا بنک کا کیشئر اسے ستاسی پیسے واپس کرے گا؟ بالکل نہیں کرے گا۔ چناچہ لازماً اس شخص کو پورے تریسٹھ روپے ادا کرنے پڑیں گے یہ زیادتی ہے اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے پاکستان میں روزانہ تین لاکھ بیس ہزار بیرل پیٹرول فروخت ہوتا ہے آپ اگر اسے لیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ چھ کروڑ آٹھ لاکھ اسی ہزار لیٹر بنتا ہے اب آپ اندازہ کیجیئے اگر پیٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لیٹر پر 67پیسے اڑاتی ہیں تو یہ کتنی رقم بنے گی؟یہ چار کروڑ بیالیس لاکھ پینسٹھ ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پیٹرول نہیں ڈلواتے صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر ڈیزل خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیرا پھیری موجود رہتی ہے۔

اگر کوئی معاشی ماہر اس پر تحقیق کرے وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں،مہینوں سے برسوں،اور برسوں کو تیس سال سے ضرب دے دے تو یہ اربوں روپے بن جائیں گے گویا ہماری سرکاری مشینری تیس برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے اور حکومت کو پتہ تک نہیں ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل ثابت ہو گا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کرپشن کا حجم ساڑھے چار کروڑ نہ ہو لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود کہ جب سٹیٹ بنک ایک پیسہ مالیت کا سکہ جاری ہی نہیں کر رہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ” رائونڈ فگر ” میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں یہ 62روپے13پیسوں کو یا تو 62 روپے کر دیں یا پورے 63روپے کر دیں تاکہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائیاگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر یقیناً اس میں کوئی گڑبڑ ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری بیورو کریسی کوئی ایسی غلطی کبھی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی