نوجوان نسل ہمارا مستقبل تو ہے مگر

Youth

Youth

تحریر : پیر توقیر رمضان
پاکستان کی سیاست میں کوئی لفظ حرف آخر نہیں ہوتا، ہماری سیاسی جماعتیں اورحکومتی ترقی کے خواب اور نوجوانوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھا کر عوام سے ووٹ تو حاصل کرلیتے ہیں مگر بدقسمتی سے اپنی کی ہوئی زبان اور وعوں پر پورا نہیں اترتے ، اسی طرح کہنے میں تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے ،ہمارے حکمران عوام کو ترقی کے خواب میں پاکستان کو یورپ تو دیکھا رہے ہیں مگر جب خواب ختم تو حقیقت دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ اس سب سے برعکس ہوتی ہے،اگر ایک نظر ہم موجودہ صورتحا ل کی طرف ڈوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم کاغذی اور زبانی طور پر ترقی کررہے ہیں مگر درحقیقت آئے روز ہم مختلف طرح طرح کے مسائلوں میں گھیرے جارہے ہیں کیونکہ دیکھا جائے کسان سڑکوں پر ملتے ہیں،عوام سڑکوں پر مل رہی ہے ، بے روزگاری کا مسئلہ عام ہو کر ناقابل حل ہوتا جا رہا ہے۔

پہلے دور میں جب لوگ ان پڑھ اور جاہل ہوتے تھے جو حکومت کی طرف سے طرح طرح کی آسامیاں دی گئی اور ان پر بھاری تنخواہیں دی جانے کا اعلان کیا گیا مگر یہ آسامیاں صرف ان کے لیے تھیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تھے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوںنے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی فراہمی ضروری سمجھی اور بچوں کوایک دیہی لیول پر گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانیوالے اس دور میں بچوں کو دی جانیوالی تعلیم کنسیپٹ (تصور)کی بنیاد پر ہوتی تھی یعنی جو چیز استاد ایک دفعہ پڑھا دیتا وہ تیا ر تھا اور اس دور امتحانات کے بچوں کے نمبر کو کم ہوتے مگر علم زیادہ ہوتا تھا اسی لیے اس دور میں نامی گرامی ڈاکٹر زا ور انجینئرز ہوتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا دور ترقی کرتا گیا گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں کم پڑھائی ہونے کے الزام میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بنادیئے گئے جنہوں نے اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے پرائیویٹ تعلیمی اداروںکی طرف رحجان بڑھنے لگا، اسی طرح کتابوں سے معلومات کم ہوتی گئی اور رٹا سسٹم کو فروغ بھی ملتا گیا اور آج ہم جس میدان آن کھڑے ہیں یہاں پر تعلیم کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے اور صرف اور صرف رٹا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہزاروں نمبر تو آجاتے ہیں مگر علم نہ ہونے کے باعث نہ تو کوئی نامی گرامی ڈاکٹر بن رہا ہے اور نہ انجینئر جو کہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔دوسری طرف آسامیاں پر حکومتی شرائط کے عین مطابق ہونے کے لیے زندگی کا ایک قیمتی حصہ لگا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں تو حاصل کر لی جاتی ہیںمگر پھر قسمت کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور وقت کی جدت اور تیزی کے باعث مقدر والے ہیں آسامیاں پر لگتے ہیں کیونکہ نوجوان نسل اپنی زندگی کا لگا کر ڈگریاں تو لے لیتی ہے ہمارا روشن مستقبل نوجوان نسل انہی ڈگریاں کو ہاتھوں اٹھائے نوکریوں کی تلاش میں دھکے کھاتی ہے چلتی ہے تو صرف سفارش یا رشوت ، ادارو ں میں بھرتیوں کے وقت میرٹ کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہی وجہ ہے آج کے دور میں پڑھائی کا رحجان کم او ربزنس کا رحجان بڑھتا جار ہا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارے اداروں میں تعینات افسران کو صرف اور صرف پیسے کی حوس ہوتی ہے اسی وجہ سے نوجوان دھکے کھاتے ہیں جب کو ئی غریب کا بچہ نوکری پر تعینات ہو بھی جائے تو وہ بھی چند دن ایمانداری سے کام کرنے کے بعد انہی درندوں کا روپ دھار کر صرف اور صرف رشوت یا سفارش کو فروغ دیتا ہے ،اگر صورتحال یہی رہی تو چند سالوں بعد ہمارے ادارے سنسان ہو جائیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بھرتیوں کے عمل کو شفاش اور میرٹ پر بنائے تاکہ زندگی کا ایک قیمتی حصہ ضائع کرکے اعلیٰ تعلیم اور اور اداروں کی ڈگریاں حاصل کرنیوالے نوجوان بھی جاب حاصل کرکے اپنی زندگی خوشی سے گزار سکیں۔

Pir Toqeer Ramzan

Pir Toqeer Ramzan

تحریر : پیر توقیر رمضان