سانحہ یوحنا آباد کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ

Yuhana Abad Tragedy

Yuhana Abad Tragedy

تحریر: ع.م.بدر سرحدی
٢٩،اپریل ١٥ہ٢، شام ,ARY،پر بریکنگ نیوز کی کلپ دکھائی جا رہی تھی، عین اسی وقت مجھے لندن سے عمانوایل ظفر کا فون آیا ،کہ یہ بریکنگ نیوز دیکھ رہے ،یار میرے پاس تو ٹی وی نہیں …..اُس نے کہا کہ جوزف فرانسس کے اکسانے پر یو حنا آباد میٹرو سٹیشن پر توڑ پھوڑ کی اور اب جوزف فرانسس کے خلاف مقد مہ درج کیا جائے گا، میں پوچھا کسی اور چینل پر اُس نے کہا نہیں ……تھوڑی دیر بعد اُس نے پھر فون کیا اور بتایا کہ وہ خبر ہٹا دی گئی۔

٢٧ اپریل کو جوزف فرانسس کی طرف سے دائر کی گئی رٹ کی سماعت ہوئی تو پولیس نے جو ریکارڈ عدالت میں پیش کیا کہ بتائے گئے دو افراد کا علم نہیں جبکہ تیسرا ملزم مفرور ہے ،معزز عدالت نے پولیس کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ متعلقہ تین پولیس افسران کے خلاف اغوا کا پرچہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا جائے ،جب اگلے دن تفصیلی فیصلہ آیا،صوبائی ریاستی مشینری سرجوڑ کر بیٹھ گئی،جوزف فرانسس نے تو پلانگ طہس نہس کردی ،کیا کیا جائے …..؟؟

کہانی شروع ہوتی ہے ،دو چرچز پر حملہ میں ١٥،ہلاکتیں پانچ مسلمان بھی تھے سو سے زائد زخمی بعد …اب پولیس نے جائے وقوعہ سے دو مشتبہ افراد حراست میں لئے ،یہ آج تک راز ہے کہ پولیس نے اِن کو کیوں حراست میں لیا ….اس وقت تک غلاموں کی اس بستی میں کچھ لوگ احتجاج کے لئے باہرآچکے تھے اور قرب و جوار سے بھی ٹولیوں کی صورت میں لوگ آرہے تھے ،اب وہ مشتبہ دو افراد مشتعل ہجوم کے حوالے کس نے اور کیوں کئے،یہ بھی پردہ راز میں ہے ،اسی پر ٢٣، اپریل کی پریس کانفرنس میں جوزف فرانسس نے مطالبہ کیا کہ سانحہ یوحنا آباد کی جوڈیشل تحقیقات کی جائے ،اب ہجوم نے کہانی اخبارات میں چھپ چکی ہے ، حقائق تو تب سامنے آئیں گے جب جوڈیشل انکوائری ہوگی کہ ہلاک کئے جانے والے دونو افراد یہاں کیوں آئے،جبکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق خودکش حملوں کے سہولت کار پولیس نے گرفتار کئے ہیں .، تاہم اُن دونوں کا تعلق حکمران قوم سے تھا ….. اور غلاموں کی یہ جرات کہ…… ، حکمران قوم کو اپ سیٹ کر دیا ،اب اس بستی میں پولیس کاروائی شروع ہوئی اور لوگوں کو پکڑنا شروع کر دیا ،خود کش حملوں میں مرنے والے اور زخمی پس منظر میں چلے گئے کیونکہ زیادہ تعداد کمیوں کی تھی،میڈیا کا رویہ بھی جانبدارانہ ہو گیااور وہی دوافراد منظر پر …..منصوبہ یہ تھا کہ یہاں کمیوں کو اِس حد تک زچ کیا جائے کے وہ یوحنا آباد چھوڑ جائیں،یہ تاثرختم ہو کہ یہ ایشیا کی بڑی مسیحی آبادی ….. آج ان غلاموں نے یہ جرات کی کل اور کچھ بھی گل کھلا سکتے ہیں یہ ایک عام سی مخلوط آبادی بنا دی جائے۔

Church Attack

Church Attack

……اس منصوبہ کی کامیابی میں جوزف فرانسس رکاوٹ بن گئے جب اُس نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور پکڑے گئے لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعاکی اور ہل چل تب مچی جب ٢٧ ،اپریل کافیصلہ ّآیا،کہ متعلقہ پولیس افسران کے خلاف اغوا کا پرچہ درج کر کے انہیں گرفتا کیا جائے ،اب ان غلاموں میں ایسی جرات کہاں جو پولیس کے خلاف مدعی بنے…..اب محکمہ داخلہ پنجاب کے پاس کوئی اور اپشن نہیں کہ جوزف فرانسس کے خلاف مقدمہ درج کرائے چنانچہ ،٢٧،اپریل کے عدالتی فیصلے پر میٹنگز شروع ہوگئی کہ .٢٩ ، اپریل کو اے آر وائی،چینل پر غلطی سے خبر چلا دی جبکہ اُس وقت تک یہ فیصلہ نہیں ہوأ تھا کہ کیا کیا جائے ،٢٨ ،اپریل سے ٩ ١،مئی تک میٹنگز چلتی رہیں، تا آنکہ٢٠ ،مئی کو روز نامہ جنگ نے محکمہ داخلہ پنجاب کے زرائع کے حوالے سے خبر دی ، کہ ” وزیر اعلےٰ پنجاب کی صدارت میں اعلےٰ سطحی میٹنگ میں”سانحہ یوحنا آباد کے مرکزی کردار”جوزف فرانسس کی طرف سے ایک چینل پر دئے گئے انٹرویو کا جائزہ لیا گیا۔

زرائع کے مطابق اِس میٹنگ میں وزیر اعلےٰ پنجاب،ہوم سکرٹری،اور آئی جی سمیت دیگر اعلےٰ حکام نے شرکت کی ظاہر ہے صوبائی کابینہ کے اراکین بھی… ….”جوزف فرانسس نے اپنے انٹر ویو میں کہا ،(١) دونوں بھائی دہشت گردوں کو چندہ دیتے ہیں چندہ دینے والے کیا پکڑیں گے (٢)مزید کہا مسیحی پاکستان میں برابر کے شہری نہیں اور نہ ہی انہیں آئنی تحفظ حاصل ہے (٣ ) سانحہ یوحنا آباد کے پیچھے پنجاب حکومت کا ہاتھ ہے (٤)سانحہ یوحنا آباد کے بعد جوزف فرانسس امریکہ فرار ہو گئے تھے ،اور آجکل برطانیہ میں قیام پزیر ہیں …جوزف فرانسس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ نے جنگ کو بتایا ،جوزف فرانسس نے جھنڈا جلا کر ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کی مزموم سازش کی ہے ، جس کا سانحہ یوحنا آباد کے بعد بننے والی کمیٹی نے سخت نوٹس لیا ہے، وزیر داخلہ نے مزید کہا جوزف فرانسس کے خلاف غیر قانوننی اور غیر آئنی اقدام کرنے پر مقدمہ درج کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔

غیر آئینی وغیر قانونی اقدام یا جرم جن کا سخت نوٹس لیا گیا،اسنے کہا یہ دونوں بھائی دہشت گردوں کو چندہ دیتے ہیں یہ کیونکر پکڑیں گے ،مسیحی پاکستان میں برابر کے شہری نہیں،سانحہ یوحنا آباد کے پیچھے پنجاب حکومت کا ہاتھ ہے اور جھنڈا جلایا ….البتہ ٢٣،مارچ کو جوزف فرانسس نے اپنے پارٹی آفس پر قومی پرچم لہرایا ،دوسرے وہ امریکہ گیا ہی نہیں وہ ،٤،مئی کو لندن گئے وہاں ایک پریس کانفرنس کی اور ٢٠،مئی کو واپس ملک میں تھے،اور اب وہ گرفتاری کے منتظر ہیں ،جہاں اُس کا یہ کہنا کہ مسیحی پاکستان میں برابر کے شہری نہیں …..اِس کا جواب مقدمہ قائم کر کے نہیں،بلکہ حکومت یہ ثابت کرے کہ مسیحی پاکستان میں برابر کے شہری ہیں جوزف فرانسس کا الزام غلط ہے جنگ کی اس رپورٹ کے مطابق جوزف فرانسس کو سانحہ یوحنا آباد کا مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے ،اب یوحنا آباد میں دو سانحات ہوئے ، ایک تو چرچز پع پرخود کش حملے ،دوسرا اِس سے بھی بڑا سانحہ حکمران قوم کے دو افراد کو زندہ جلایا گیا ،پہلی اور اہم ضرورت تھی تحقیقاتی کمیٹی اِس المناک سانحہ کی تفتیش و تحقیق کرتی اور عوام کے سامنے حقائق لائے جاتے مگر ایسا نہیں ہوأ آج تک کوئی خبر نہیں کہ کمیٹی نے کمیٹی روم سے باہر آکر بھی کوئی …. ،چر چز پر حملے بعد کی بات ہے ،مگر تحقیقاتی کمیٹی نے صرف جوزف فرانسس پر تحقیقات کی کہ اسے کس جرم میں اور کیسے ملوث کیا جا سکتا ، مگر چرچز پر خود کش حملوں اور دو مشتبہ پکڑے گئے افراد کو ہلاک کر کے جلایا ، اِن دونوں سانحات پر مٹی ڈال دی گئی۔

چلتے چلتے تازہ واقع،٢٥مئی کے نوائے وقت لاہور نے اپنے نامہ نگار سے خبر دی کے مدینہ کالونی ساندہ میں بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگے ڈبے سے مقدس اوراق نکال کر ایک مسیحی انکی بے حرمتی،یعنی اپنے اور برادری کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر رہا تھا ،وہاں سے گزرنے والوں نے د یکھا پکڑنے کی کوشش کی تو وہ بھاگ گیا …..پھر کیا تھا وہاں کے رہائشی غلاموں کی شامت آگئی اور گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کے لئے نکل بھاگے کہ وہ اکثریت کا سامنا نہیں کر سکتے اکثریت شیر ہے……… پھر رات گئے تک توڑ پھوڑ کا بازار گرم رہا …..بہر حال اقلیتوں کو یہاں کسی قسم کاکوئی تحفظ نہیں ،کوئی بھی محض ایک لفظ مقدس اوراق کی بے حرمتی… یہ سزائے موت کا حکم ہے کسی تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں .میں کئی بارلکھ چکا ہوں کہ حالات تیزی سے تہذیبوں میں تصادم کی طرف لے جائے جا رہے ہیں،سنجیدہ انسانوں سے اپیل، آنکھیں بند نہ کریں بلکہ تہذیبوںمیں آخری تصادم رو کنے کے لئے اپنا انسانی کردار ادا کریں۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی