کیا ہم انسان ہیں یا پروڈکٹ

Zenab Murder Case

Zenab Murder Case

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
آج سات روز گذرنے کے بعد بھی زینب قتل کیس وہیں کا وہیں ہے آج ایک نئی فوٹیج بھی آئی ہے جس میں زینب کو اغوا کرنے والے شخص کو زینب کی گلی میں چلتے پھرتے دکھایا گیا ہے یہ واضح فوٹیج ہیں وہ شخص مستقل گلی میں اس طرح ٹہل رہا ہے جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو اس فوٹیج میں اس کا چہرہ ،لباس بالکل واضح ہے وقت شام کا ہے اور لگتا یہی ہے اس شخص نے زینب کو گھر سے نکلتے ہی اغوا کیا ہے جس وقت وہ سپارہ پڑھنے گھر سے نکلی تھی اب اس شخص کی شناخت کم از کم کوئی مسلہ نہیں رہی دوسرا یہ بھی قابل غور ہے کہ وہ زینب کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی کیوں گلی میں ٹہل رہا تھا کیا اس کو پہلے سے زینب کے گھر سے نکلنے کا پتہ تھا؟ دوسرا وہ مستقل موبائل فون پر ٹیکسٹنگ بھی کر رہا تھا یعنی قاتل نے ریکی بھی کی یعنی وہ اپنے شکار کا پیچھا کرتا رہا اور موقعے کا فائدہ اٹھا کر کسی آدم خور درندے کی طرح اسے اچک کر لے گیا ۔۔۔۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ لوگ جو کوئی بھی ہیں ،ایک منظم مافیا کی طرح سائنسی انداز میں ہر واردات کر رہے ہیں ان کا یہی ایک کام نہ ہو گا یہ اجرتی قاتلوں ،بین الاقوامی دہشت گردوں اور ایسے ہی دوسرے جرائم پیشہ نیٹ ورکس تک بھی پولیس کو رسائی دے سکیں گیاس سلسلے میں قصور جنسی اسکینڈل کے تمام ضمانت پر رہا با اثر افراد کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے سارے ڈانڈے یہیں سے ملیں گے یہاں منظم کاروبار ہو رہا ہے جس میں پولیس با اثر سیاستدان اور انڈر ورلڈ سب شامل ہیں زینب کے والد نے عدلہ اور آرمی چیف سے مدد طلب اس لیے کی ہے۔

سپہ سالار کی ہدایت پر خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو قصور میں تعینات کیا گیا جنھوں نے ہوش ربا انکشافات کیے ہیں سب سے خوفناک انکشاف یہ ہے کہ گنڈا سنگھ والا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے ان کی وڈیوز کو عالمی مارکیٹ میں بیچنے میں نون لیگ کے اراکین پارلیمنٹ اور پولیس کے اعلی افسران کا گٹھ جوڑ ہے اس لیے نہ تو پولیس ان بچوں کی ایف آئی آر کاٹتی تھی نہ کسی کو پکڑتی تھی الٹا زیادہ شور مچانے والوں کو مروا دیا جاتا تھا پولیس افسران مقامی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرتے رہے اراکین پارلیمنٹ کے حکم پر پولیس نے چند سالوں میں 120سے زائد افراد جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیئے جن کی اکثریت بے گناہ تھی جن میں سے 92صرف سابق ڈی پی او ناصر رضوی نے مروائے قصور کے دو ڈی ایس پی اور سولہ ایس ایچ او تمام کے تمام کروڑ پتی ہو چکے ہیں ان میں سے ایک ڈی ایس پی نے حال ہی میں چودہ مربعے زمین خریدی ہے ابھی مزید تفتیش جاری ہے (بحوالہ چینل 92) جب قصور میں تین سو بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت بچوں نے مجرم بھی شناخت کر لیے تھے وہ گرفتار بھی ہوئے تھے مگر پھر پولیس نے چھوڑ دیئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی با اثر سیاستدان بچوں کے ساتھ بد فعلی کی وڈیو بنا کر مہنگے داموں بیچنے کے کاروبار میں ملوث تھے۔

یہ سارا کام ان کی زیر نگرانی چل رہا تھا یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس اسکینڈل کے بعد ہی زینب سمیت بارہ بچے بچیوں کی لاشیں ملنا شروع ہوئیں یعنی اب یہ شیطان کوئی رسک نہیں لینا چاہتے اب یہ اپنا کام کرنے کے بعد بچوں کو قتل کر دیتے ہیں اگر قصور اسکینڈل کیس کی گہرائی سے تفتیش کی جاتی تو اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکتا تھا شائد اس کے بعد یہ بچے اغوا اور قتل نہ ہوتے ” ڈارک ویب” کو ٹریس کرنا بے شک مشکل ہے لیکن قصور جیسے علاقے میں انٹر نیٹ صارفین کا پتہ لگانا کوئی ایسا مشکل کام نہیں پولیس متعلقہ محکمے کی مدد سے سارا ریکارڈ نکلوا سکتی ہے سی سی ٹی وی فوٹیج کے گردو نواح میں جتنے صارفین ہیں ان کی اغوا کے دن سے لاش ملنے کی ڈیٹ تک اگر صرف اپ لوڈ اور سینڈ کیا گیا ڈیٹا ریکارڈ ہی نکلوا لیا جائے تو یہ معمہ حل ہو سکتا ہے پھر یہ عمل رات کو ہی کیا گیا اور خاصی دیر تک جاری رہا جب تک واردات ہوتی رہی انٹر نیٹ خوب استعمال ہوا ڈیٹا ڈائون لوڈ سے زیادہ اپ لوڈکیا گیا کہ یہی اس جرم کی سب سے بڑی ڈیمانڈ تھی ۔۔۔۔۔۔جب جرم ہو گیا تو یہ عمل رک گیا کیونکہ لائیو اسٹریمنگ کی اب ضرورت نہ تھی ۔۔ اب چند دنوں میں کون سے صارف نے انٹر نیٹ کا ایسا بے تحاشہ استعمال کیا ہو گا یہی سراغ لگا لیں تو کیس حل سمجھیں ،یاد رکھیے وی پی این استعمال کیا جائے تو بھی اپ لوڈ اور ڈائون لوڈ بیرا میٹرزکم از کم پیٹی سی ایل والوں سے چھپے ہوئے نہیں رہتے کیونکہ وہ اسی کی بنیاد پر بلنگ ان فارمیشن ترتیب دیتے ہیں۔

مزید یہ کہ ایسے کام سست رفتار کنکشن پر تو کبھی کیے نہیں جاتے ،پھر اس گروہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک سے زائد کنکشن بھی ہوں گے اور کچھ تو چوبیس گھنٹے فعال رہتے ہوں گے ۔۔۔۔۔ اس نقطہ نگاہ سے تفتیش کا دائرہ مزید سکڑ جاتا ہے ۔۔۔اب آتے ہیں قتل کے چند دن بعد کی رپورٹ کی طرف۔۔۔۔قصور میں جن لوگوں نے یہ واردات کی قوی امکان یہی ہے کہ انہوں نے رقم پاکستان منتقل کروائی آن لائن ٹرانزکشن کی تفصیلات،FCY Accounts Goole ad sense Remittanceوغیرہ کا ان دنوں کا ریکارڈ اس ضمن میں خاصا معاون ثابت ہو سکتا ہے قصور میں فعال منی ایکسچینج دفاتر سے بیرون ممالک سے آنے والی رقوم کو ٹریس کر کے بھی کچھ نہ کچھ کلیو مل سکتا ہے۔

اگر یہ گینگ اس قسم کی وارداتوں میں ایک عرصہ سے ملوث ہے تو یقیناً قصور کی فارن کرنسی انڈسٹری بھی بہت اچھی جا رہی ہو گی ۔۔۔ گروہ کے تمام ارکان تو اپنی رقوم بیرون ملک نہیں رکھتے ہونگے ،کچھ نہ کچھ بلکہ ایک بڑا حصہ قصور یا لاہور کے بینکوں میں ہی محفوظ کیا جاتا رہا ہو گا بھاری منتقلی کا ریکارڈوہ بھی ان دنوں میں کار آمد کلیو ہو گا ) اگر قصور میں ہونے والے جنسی اسکینڈل اسکینڈل کیس کے مجرموں کو سزائیں دے دی جاتیں تو یقیناً یہ مزید وارداتیں نہ ہوتیں خدا کرے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اس زاویے سے بھی تحقیق کر رہی ہوں اگر پولیس چاہے تو جیو فنسنگ سے بھی کچھ نہ کچھ مدد ضرور مل سکتی ہے چھ بجے تک اس گلی میں استعمال ہونے والے موبائلز فون کے ڈیٹا کو حاصل کر کے اس شخص کے فون کو ٹریس کیا جا سکتا ہے آجکل دنیا بھر میں پھیلے جنسی شیطانوں اور نفسیاتی مریضوں کے لیے ڈارک ویب پر باقائدہ اس طرح کا تشدد اور جنسی فعل کی لائیو اسٹریمنگ کی جاتی ہے اس دنیا میں ایسے درندے بھی ہیں جو یہ سب کچھ لائیو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کا یہ شوق ایک نشے کی صورت اختیار کر گیا ہے قصور میں جنسی اسکینڈل سے لے کر زینب کے قتل تک جو کچھ ہوا اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ یہ سب کچھ انڈر ورلڈ پورن کے لیے کیا جا رہا ہے یہ لاکھوں ڈالرز کا بزنس ہے یہ سخت حیرانی ،خوف اور شرمندگی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کام ہو رہے ہیں کہ معصوم بچوں کو وحشت اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حکومت کو ہر حال میں انہیں کیفر کردارتک پہنچانا ہو گا۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی