پیرس دہشت گردانہ حملے: ’میں داعش کا سپاہی ہوں،‘ ملزم کا بیان

Paris Police

پیرس (اصل میڈیا ڈیسک) پیرس میں دو ہزار پندرہ کے دہشت گردانہ حملوں کے زندہ بچ جانے والے واحد حملہ آور صالح عبدالسلام نے دوران سماعت عدالت میں ایک بیان دیا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ ’داعش کا ایک سپاہی‘ ہے۔

فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں نومبر 2015ء میں بیک وقت کئی مقامات پر کیے گئے مربوط دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد مارے گئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔

پیرس سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق مراکشی نژاد فرانسیسی شہری صالح عبدالسلام نے اپنے ‘داعش کا سپاہی‘ ہونے سے متعلق بیان تقریباﹰ چھ برس قبل 13 نومبر کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں سے متعلق مقدمے کی کارروائی کے آغاز پر دیا۔

پیرس کی ایک عدالت میں اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت ہوا۔ ملزم صالح عبدالسلام کو جب عدالت میں لایا گیا، تو وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا اور اس کا چہرہ بھی ایک سیاہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔

اس مقدمے میں عدالتی کارروائی مجموعی طور پر 20 ایسے جہادیوں کے خلاف کی جا رہی ہے، جن پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان میں سے اس وقت 31 سالہ صالح عبدالسلام اس خونریزی کے مرتکب حملہ آوروں میں سے زندہ بچ جانے والا واحد ملزم سمجھا جاتا ہے۔

ڈیڑھ درجن سے زائد ان جہادیوں نے یہ حملے چھ شراب خانوں اور ریستورانوں، باٹاکلاں کنسرٹ ہال اور ایک سپورٹس اسٹیڈیم میں کیے تھے۔ یہ حملے اتنے ہلاکت خیز تھے کہ انہیں بہت سے ماہرین نے ‘یورپ کا نائن الیون‘ قرار دیا تھا اور ان کی وجہ سے فرانس کی اپنے ہاں سلامتی انتظامات کے حوالے سے خود اعتمادی کو بھی شدید دھچکا لگا تھا۔

پیرس حملوں سے متعلق اس مقدمے کی سماعت شہر کے وسطی علاقے میں Palais de Justice یا قصرِ عدل نامی عدالت میں ہو رہی ہے، جس کے باہر ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے بہت سے افراد کے علاوہ ہلاک شدگان کے بہت سے رشتے دار بھی جمع تھے۔

ان فرانسیسی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ قصرِ عدل کے باہر اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ملزم صالح عبدالسلام کا عدالت میں دیا جانے والا بیان سن سکیں اور یہ بات بہتر طور پر سمجھ سکیں کہ جو کچھ بھی ہوا، وہ کیوں ہوا؟

یہ عدالتی کارروائی تقریباﹰ نو ماہ تک جاری رہے گی، جس میں تقریباﹰ 1800 مدعیان کی طرف سے 300 سے زائد وکلاء حصہ لیں گے۔ ملکی وزیر انصاف ایرک دُوپاں موریتی نے اسے فرانسیسی تاریخ کی ‘بے نظیر عدالتی میراتھن‘ قرار دیا ہے۔

پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ان منظم سلسلہ وار حملوں میں پیرس میں اور اس کے گرد و نواح میں سات مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد دو سو ہے، جن میں سو کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔

اس مقدمے میں جن 20 ملزمان کو اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا ہے، ان میں سے 11 پہلے ہی جیل میں ہیں اور اپنے خلاف کارروائی کے منتظر تھے۔ چھ نامزد ملزمان کے خلاف یہ عدالتی کارروائی ان کی غیر حاضری میں مکمل کی جائے گی۔ ان میں سے زیادہ تر مارے گئے تھے۔

مقدمے کے اکثر ملزمان کو ان کے جرائم ثابت ہو جانے پر عمر قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ باقی ماندہ ملزمان کے خلاف الزامات یہ ہیں کہ انہوں نے حملہ آوروں کو ہتھیار یا گاڑیاں مہیا کیں یا پھر ان حملوں کے لیے دیگر تیاریوں میں مدد کی۔

چھ سال پہلے پیرس کے ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی تھی۔ تب یہ تنظیم شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض تھی اور وہاں اس کے خلاف کارروائیوں میں دیگر مغربی ممالک کی طرح فرانس بھی شامل تھا۔ اس پر داعش نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ فرانس پر مسلح حملے کریں۔

ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔

اس مقدمے میں عدالتی فیصلہ اگلے برس مئی کے اواخر میں متوقع ہے۔ سماعت کے لیے کمرہ عدالت میں خاص طور پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کارروائی کے دوران عدالت میں موجود ملزمان کو شیشے کی ایک موٹی بلٹ پروف دیوار کے پیچھے بٹھایا گیا۔

عدالتی کارروائی میں حصہ لینے والے وکلاء اور دیگر افراد کی کئی مراحل میں سخت سکیورٹی چیکنگ کا بھی انتظام کیا گیا ہے، جس کے لیے خاص طور پر ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار متعین کیے گئے ہیں۔

اس سسلے میں فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ دارمانیں نے فرانس انٹر نامی نشریاتی ادارے کو بتایا، ”فرانس میں دہشت گردی کا خطرہ کافی زیادہ ہے، خاص طور پر ایسے ٹرائلز کے موقع پر۔‘‘