پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اپوزیشن کی ناکامی، حکومت نے 33 بلز منظور کرا لیے

Parliament Session

Parliament Session

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور کلبھوشن سے متعلق بلز سمیت 33 بلز منظور کرانے میں کامیاب رہی جبکہ اپوزیشن نے اس دوران خوب شور مچایا اور واک آؤٹ بھی کیا۔

پارلیمنٹ نے انتخابی ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم کرنے کے بل ’انتخابات ترمیم دوئم بل 2021ء‘ کی کثرت رائے سے منظوری دے دی جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئیں ترامیم مسترد کردی گئیں۔

اپوزیشن نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور ہونے پر واک آؤٹ کیا تاہم بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس بل کی منظوری کے بعد عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل سکے گا۔

بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابی ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل ’انتخابات ترمیم دوئم بل 2021ء‘ آئین کے آرٹیکل 70 کی شق (3) کے تحت فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دی اور بعد ازاں ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔

مذکورہ بل کی شق نمبر 2 پر اپوزیشن رکن محسن داوڑ کی جانب سے ترمیم پیش کی گئی لیکن بابر اعوان نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ بل کافی عرصہ سے چلا آرہا ہے، بل 90 دن سینیٹ میں زیر غور رہا، یہ اس میں تاخیر چاہتے ہیں، یہ ترمیم غیر ضروری ہے۔ اس پر ایوان سے رائے لی گئی اور کثرت رائے سے ترمیم مسترد کردی گئی۔

بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے چیلنج کرنے پر اس پر ووٹنگ کرائی گئی۔ تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ آئے اور یوں تحریک منظور کرلی گئی۔ اس دوران اپوزیشن نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا اور ایوان میں شور شرابا اور اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔ اسپیکر نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو ایوان میں طلب کیا جنہوں نے اسپیکر ڈائس کو اپنے حصار میں لیا۔

مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے دوسری ترمیم پیش کی، اس پر تاج حیدر نے اپنی ترمیم پیش کی جس کی بابراعوان نے مخالفت کی۔ اسپیکر نے بابر اعوان کی ترمیم ایوان میں پیش کی اور اسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ایوان نے تاج حیدر کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد کردی۔

شق (3) میں تین ترامیم تھیں۔ بابر اعوان نے اس پر اپنی ترمیم پیش کی جو منظور کرلی گئی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے ترمیم پیش کی، مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے اس کی مخالفت کی اور ایوان نے مشتاق احمد خان کی ترمیم مسترد کردی۔

اس کے بعد بابر اعوان نے انتخابات ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل ’انتخابات ترمیم دوئم بل 2021ء‘ منظوری کے لیے پیش کیا جس کی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

اس بل کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کے لیے الیکشن کمیشن، نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) اور دیگر ایجنسیز کی تکنیکی معاونت حاصل کرسکے گا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق ’عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غورِ مکرر بل 2021‘ بھی منظور کر لیا گیا۔

یہ بل وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

اس بل کا مقصد کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

اس بل پر بھی اپوزیشن اراکین کی جانب سے ووٹوں کی گنتی کو غلط قرار دیتے ہوئے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر کے احتجاج کیا گیا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ گنتی پر ووٹنگ بالکل ٹھیک ہوئی ہے۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے جو دیگر بلز منظور کرائے گئے ان میں دی اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹریز چیریٹیز رجسٹریشن، ریگولیشن اینڈ فسیلیٹیشن بل 2021، اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپوریشن امینڈمنٹ بل، نیشنل کالج آف آرٹس انسٹیٹیوٹ بل، مسلم فیملی لاء ترمیمی بل، اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) بل، حیدرآباد انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنیکل اینڈ منیجمنٹ سائنسز بل، اسلام آباد رینٹ ریسٹرکشن ترمیمی بل، کرمنل لاء ترمیمی بل، کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ کمپنیز ترمیمی بل شامل ہیں۔

اس کے علاوہ فنانشل انسٹیٹیوشن سکیورڈ ٹرانزیکشن ترمیمی بل، فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ویلیڈیشن آف رولز) ترمیمی بل، یونیورسٹی آف اسلام آباد بل، قرض برائے زرعی، تجارتی و صنعتی مقاصد ترمیمی بل، کمپنیز ترمیمی بل، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن ترمیمی بل، پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ترمیمی بل، پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل، گوادر پورٹ اتھارٹی ترمیمی بل، میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی ترمیمی بل، امیگریشن ترمیمی بل اور نجکاری کمیشن ترمیمی بل بھی آج کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرائے گئے۔

پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں کووڈ 19 (پریونشن آف ہورڈنگ) بل 2021، الکرم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ بل 2021، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اتھارٹی فوڈ سیفٹی بل 2021، یونانی ، آیورویدک اینڈ ہومیوپیتھک پریکٹیشنرز ایکٹ، پریونشن آف کرپشن ترمیمی بل، پرووینشل موٹر وہیکل ترمیمی بل اور ریگولیشن آف جنریشن ، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن آف الیکٹرک پاور ترمیمی بل 2021 بھی منظور کرائے گئے۔

بعد ازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ بدھ کو ایوان میں 70 نکاتی ایجنڈا نمٹایا گیا ، حکومت ایجنڈے کے تمام نکات نمٹانے کے علاوہ اضافی پانچ بل بھی منظور کروانے میں کامیاب رہی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے صدارتی احکامات پڑھ کر سنائے۔

خیال رہے کہ ان بلز کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس لیے منظور کرایا گیا تاکہ یہ بلز سینیٹ میں نہ جائیں جہاں حکومتی ارکان کی تعداد کم ہے اور اگر یہ بلز وہاں جاتے تو ان کے منظور نہ ہونے کا قوی امکان تھا لہٰذا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ارکان قومی اسمبلی و سینیٹرز کی موجودگی میں انہیں منظور کروالیا گیا۔ صدر مملکت کی توثیق کے بعد یہ بلز قانون کا حصہ بن جائیں گے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جیسے ہی مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو بلز پیش کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے لہٰذا اس بل کو مؤخر کر دیا جائے۔ بابر اعوان کی استدعا پر اسپیکر اسد قیصر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل مؤخر کر دیا تھا تاہم بعد میں اس بل کو پیش کردیا گیا اور منظور بھی کرلیا گیا۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ بار بھی رات کے 10 بجے مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا گیا، وہ اجلاس مؤخر کر دیا گیا، مجھے آپ کا خط موصول ہوا، ہم نے پوری توجہ سے آپ کے خط پر غور کیا اور اس کا مکمل جواب آپ کو دیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان کو داد دیتا ہوں کہ وہ حکومتی دباؤ میں نہیں آئے، حکومت اور اتحادی بلز کو بلڈوزکرانا چاہتے ہیں، حکومت کے اتحادی انکاری تھے تو اجلاس کو مؤخر کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے ایوان اور 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں، یہ سلیکٹڈ حکومت اب عوام کے پاس ووٹ کے لیے نہیں جا سکتی کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ نہیں دیں گے، مشین کے ذریعے یہ سلیکٹڈ حکومت اپنی معیاد کو طول دینا چاہتی ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس خراب ہو گیا جس کے نتیجے میں دھاندلی زدہ حکومت وجود میں آئی، اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مطلب ’ایول اینڈ وشیس مشین‘ ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اراکین ایوان میں موجود تھے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ قائد حزب نے کہا کہ حکومت کالا قانون مسلط کرنا چاہتی ہے تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کوئی کالا قانون مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن ایک تاریخی دن ہے کیونکہ 1970 کے بعد سے آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے سب پر سوالات اٹھائے گئے، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بھی انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے، اب سمت درست کرنے کا وقت آ گیا ہے تاکہ ایسی قانون سازی ہو کہ جس سے شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس قانون سازی کے حوالے سے کسی قسم کی عجلت سے کام نہیں لیا بلکہ قانون سازی کے لیے تمام پروسیجرز کو اپنایا اور پارلیمنٹ کا پہلا مشترکہ اجلاس مؤخر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے کچھ معزز ممبران کے خدشات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے انہوں نے وقت مانگا اور ہم نے وقت دیا، جب ہمارے معزز ممبران دلائل سے قائل ہوئے تو آج وہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔

وزیر خارجہ کا قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے ای وی ایم کو دیے گئے نام پر ردعمل میں کہنا تھا کہ آپ نے ای وی ایم کو جو نام دیا وہ آپ کا حق ہے لیکن یہ ایول اینڈ وشیس مشین نہیں بلکہ ’ایول ڈیزائرز‘ کو دفن کرنے کے لیے لائی جا رہی ہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کی تکلیف میں ہیں، حکومت پیٹرول کی قیمت کم کرے تو ہم ساتھ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کی غلام ہے، پی ٹی آئی، آئی ایم ایف ڈیل کا بوجھ عام آدمی اٹھا رہا ہے لیکن آئی ایم ایف کے کہنے پر پارلیمان کے ہاتھ نہیں باندھے جا سکتے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ زبردستی قانون سازی کی حکومت کی کوشش کو عدالت میں چیلنج کریں گے، اس قانون سازی کے ذریعے بیرون ممالک پاکستانیوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی عوام کی توہین کی جا رہی ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی کرتے ہوئے عوام سے روٹی بھی چھین لی ہے، اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ اور عدالتوں کو جوابدہ ہونا چاہیے، اسٹیٹ بینک پارلیمان کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

مردم شماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ متنازع مردم شماری کو ہم نے الیکشن کی حد تک مانا تھا، ہم نے مردم شماری کے ایک حصہ کو دوبارہ چیک کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں سندھ نے اپنے اعتراضات اٹھائے تھے، سی سی آئی سب فیصلے اتفاق رائے سے کرتا ہے لیکن متنازع مردم شماری کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں اکثریتی ووٹ سے کیا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ متنازع مردم شماری بلوچستان اور سندھ کے حق پر ڈاکہ ہے، بلوچستان اور سندھ میں مردم شماری کے اعداد و شمار اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے کم ہیں، یہ سندھ اور بلوچستان کے ووٹ پر ڈاکہ ہے، مردم شماری اور انرجی پالیسی پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، پورا ملک مشکل میں ہے اور عوام پارلیمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو این آر او دینے جا رہے ہیں، متحدہ اپوزیشن ایوان میں اور باہر احتجاج کرے گی اور عدالت تک پہنچیں گے، کلبھوشن پر پی ٹی آئی اپوزیشن میں تو تنقید کرتی تھی آج اسے این آر او دینا چاہتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر سارے مل کر قانون سازی کرتے تو آئندہ الیکشن متنازع نہ ہوتے، عوام کے لیے قانون سازی کے بجائے کلبھوشن کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے، عوام کے بجائے الیکشن چوری کرنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کے حل کے بجائے زبردستی ای وی ایم بل پاس کروانا چاہتی ہے، جناب اسپیکر، اگر آپ اپنے عہدے کو عزت نہیں دیں گے تو اور کون عزت دے گا؟

اجلاس سے قبل شہباز شریف کی میڈیا سے گفتگو
پارلیمنٹ ہاؤس آمد پر صحافیوں نے شہبا ز شریف سے سوال کیا کہ کیا حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے یا شکست دیں گے؟ شہباز شریف کا جواب میں کہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنی تعداد پوری ہے، جو اللہ کو منظور ہوگا وہی ہوگا، مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن اپنا جواب دے گی۔