لطیف کھوسہ کے اعزاز میں پی پی پی یو اے ای کا استقبالیہ

Latif Khosa

Latif Khosa

دبئی : گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ اپنے پہلے دو روزہ نجی دورے پر یو اے ای تشریف لائے تو پی پی پی نے ان کے اعزاز میں ایک خوبصورت اور پر وقار تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب کے انعقاد کا سہرا یو اے ای کی ہر دلعزیز شخصیت اور پی پی پی یو اے ای کے صدر میاں منیر ہانس کے سر ہے جبکہ راجہ سرفراز احمد اور میاں عامر حیات اس تقریب کے میزبان تھے۔ پا کستانی کمیونیٹی نے اس تقریب میں بھر پور شرکت کر کے اس تقریب کو یادگار بنا دیا۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ صوبہ پنجاب کے پہلے گو رنر ہیں جو یو اے ای تشریف لائے ہیں لہذا جیالوں کے اندر ایک خاص قسم کا جوش و خروش پایا جاتا فطری تھا۔ پنجاب ہمیشہ سے پاکستانی سیا ست کا مرکز رہا ہے لہذا اس صوبے کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ہر جگہ ایک خاص پذیرائی حاصل ہو تی ہے اور ایسی ہی شاندار پذیر ائی گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ کے حصے میں بھی آئی ۔یہ سچ ہے کہ گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ کی مصر وفیات بہت زیادہ تھیں لیکن اسکے باوجود بھی انھوں نے کمیونیٹی کیلئے وقت نکالا جو کمیونیٹی سے انکی محبت کا آئینہ دار ہے۔انکی ساری زندگی چونکہ جمہوری جدو جہد سے عبارت ہے لہذا عوام کی محبت اور اسکاا حساس ان کے انگ انگ سے جھلکتا ہوا محسوس کیا جا سکتا ہے ۔انھوں نے کارکنوں سے کھل کر باتیں کیں اور انھیں جمہوریت کے لئے متحرک رہنے کا پیغام دیا۔ان کی آمد کارکنوں کیلئے بہت بڑی خوشی کا پیغام تھی جو ان کے چہرووں سے عیاں تھی ۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جسکی سعادت حافظ جمیل قادری کے حصے میں آئی جبکہ ھدیہ نعت بحضور سرورِ کونیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرنے کی سعادت ڈاکٹر شہزاد اکرم کے حصے میں آئی۔

ڈاکٹر شہزاد اکرم بڑے سوزو گداز سے نعت پڑھتے ہیں اور سامعین پر اپنی نعت گوئی کے گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں۔ نظامت کے فرائض پی پی پی یو اے ای کے جنرل سیکرٹری طارق حسین بٹ نے ادا کئے جو اپنی خوبصورت اور ولولہ انگیز رباعیات سے جیالوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ نے بڑا خوبصورت اور مدلل خطاب فرمایا اور پی پی پی کی قربا نیوں کا بھر پور ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ پی پی پی ایک ترقی پسند جماعت ہے جو عوا می حقوق کی علمبردار ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ہے اور اسی فلسفے کے عملی نفاذ کیلئے ذولفقار علی بھٹو نے سیاسی جدو جہد کا آغاز کیا تھا۔پا کستان پر ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی قائم تھی اور عوام کا سیاست کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔ غلام محمد اور جنرل اسکندر مرزا عوامی ڈکٹیٹر تھے جو عوام کو ہر حال میں اقتدار کی راہداریوں سے دور رکھنا چاہتے تھے۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور شہدِ ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے پاکستان کو یرغمال بنا لیا تھا ان حالات میں جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر 1985 امیں پہلا مارشل لاء لگا کر جمہوریت کی بساط کو بالکل لپیٹ کر رکھ دیاتھا۔جنرل محمد ایوب خان گیارہ سالوں تک پاکستان کے سیاہ وسفید کا مالک بنا رہا اور جمہوریت اتنا عرصہ منہ چھپائے محوِ گریہ رہی۔ ایوبی دور میں ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ چھڑ گئی گئی جس میں پاکستانی افواج نے بہادری کے نئے معیار قائم کئے اور اپنے سے کئی گنا برے د شمن کو شکست سے دوچار کیا۔ جنرل محمد ایوب خان نے جب تاشقند میں جیتی ہو ئی اس جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہار دیا تو ذولفقار علی بھٹو نے اقتدار کو ٹھوکر مار کر عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ سیکورٹی کونسل میں ذولفقار علی بھٹو کی تقریر کو پہلے ہی عوامی پذیرائی حاصل ہو چکی تھی اور ساری قوم ان کے عشق میں مبتلا تھی۔

ذولفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں جس انداز سے بھارت کو للکارا تھا اس نے پلک جھپکنے میں انھیں مقبولیت کی انتہائو ں پر پہنچا دیا تھا ۔ کشمیر کی آزادی کیلئے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کے ان کے عزم نے انھیں عوام کی نگاہوں میں ایک نجات دھندہ کے روپ میں پیش کیا تھا۔عوام سے ان کی محبت کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے لیکن اس محبت کو ذولفقار علی بھٹو نے جس جرات سے نبھایا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ نے کہا کہ ذولفقار علی بھٹو نے اپنے فلسفے کو رو بعمل لانے کیلئے بالغ رائے دہی کی بنیادوں پر انتخا بات کا مطالبہ کر دیا اور یوں پاکستانی عوام نے پہلی دفعہ 1970 میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پی پی پی اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ بڑی جماعتیں بن کر ابھریں لیکن فوجی جنتا کے اقتدار پر قابض رہنے کی ہٹ دھرمی نے ملک کو دو لخت کر دیا۔93 ہزار فوجی جوان اور پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھارتی تسلط میں چلا گیا۔

ذولفقار علی بھٹو نے فوجی جوانوں اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کیلئے بھارت سے شملہ معاہدہ کیا اور یوں تاشقند میں ہاری ہوئی بازی کو بھات میں جا کر جیتنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ 1973 کا متفقہ آئین ، اسلامی سر براہی کانفرنس اور ایٹمی توانائی کا حصول ذولفقار علی بھٹو کے وہ عظیم کارنامے ہیں جن کی بدولت عوام اپنے اس عظیم قائد کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں گئے ۔ جنرل ضیا الحق نے ایک فوجی شب خون کے ذریعے 5 جو لا ئی 1977 کو اقتدار پر قبضہ کر کے ذولفقار علی بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے ایک جھوٹے مقدمے میں انھیں سزائے موت دے ڈالی لیکن بھٹوتو آج بھی زندہ ہے اور گڑھی خدا بخش سے قوم کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے جبکہ جنرل ضیا الحق کا کوئی بھی نام لیوا باقی نہیں رہا۔ اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ذولفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہو ئے کہا کہ لوگ اپنی اولاد کو مال و دولت ، جائدادیں ،پلازے اور فیکٹریاں ورثے میں دیتے ہیں لیکن آج میں عوام کا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں دے رہا ہوں ۔ عوام کا ہمیشہ ساتھ دینا اور انکی جدو جہد میں سدا ان کے ساتھ کھڑے رہنا ۔ یاد رکھنا آخری فتح عوام کا ہی مقدر ہو تی ہے کیونکہ دنیا کی کوئی طاقت عوام کو شکست نہیں دے سکتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی جنگ جس شان اور جی داری سے لڑی ساری دنیا انکی جراتوں پر ان کیلئے رطب ا للسان ہے ۔ اپنی تیس سالہ سیاسی جدو جہد میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے صرف چار سال اقتدار میں گزارے اور 62 سال اپو زیشن کی سیاست کی اسی لئے پی پی پی کو اپو زیشن کی جماعت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی اسی جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔ پاکستان میں موجودہ جمہوریت ان کے لہو کا صدقہ ہے جس کی حفاظت پی پی پی کے فرائض میں شامل ہے۔ گورنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں کے بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز، پلازے، کشادہ اور صاف سڑ کیں،سیکورٹی کے انتظامات، امن و امان کی صورتِ حال اور قانون کی حکمرانی نے ان کے ذہن پر بڑے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی اسی طرح امن و امان اور قانون کی حکمرانی ہوتا کہ شہریوں کو دھشت گردی کی غیر انسانی کاروائیوں سے نجات ملے اور لوگ خوش و خرم زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ پی پی پی کی موجودہ حکومت نے اگرچہ اس سمت میں کافی پیش قدمی کی ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

عزیز الر حمان چن (جنرل سیکر ٹری پی پی پی پنجاب ) نے کہا کہ پی پی پی نے عدلیہ کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پی پی پی کی چیر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے لئے اپنی جان کی قربانی دے کر اس راہ کو آسان بنا دیا۔ یہ ان کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت بحال ہے اور عدلیہ آزاد ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گو رنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ نے عوامی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کا علم جس جرات مندانہ انداز سے بلند کیا ہے اس کی وجہ سے انھیں عوام میں بڑے عزت و احترم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

عدلیہ تحریک کی انھوں نے جس طرح اپنے لہو سے آ بیا ری کی اس سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عدلیہ کی موجود روش سے پاکستانیوں کی اکژیت کو سخت تحفظات ہیں کیونکہ جن مقاصد کیلئے انھوں نے اپنا لہو دیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی بے رحم آمریت کا مقابلہ کیا تھا وہ مقاصد پورے نہیں ہو ئے اور عوام اب بھی انصاف کو ترس رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا پی پی پی ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے اور جمہوریت کو ہر صورت بچائے گی۔

میاں منیر ہا نس (صدر پی پی پی یو اے ای) نے گو رنر پنجاب سردارمحمد لطیف کھوسہ کی جمہورت کیلئے خدمات کا ذکر کیا اور ان کی شاندار خدمات پر انھیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری جسطرح مفاہمتی سیاست کا علم بلند کئے ہو ئے ہیں اس سے ملک میں جمہوری اداروں کو استحکام نصیب ہو رہا ہے اور ملکی اتحاد مضبوطی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ان کی مفاہمتی سیاست ملکی نظام کی بقا کی علامت بن کر ابھری ہے۔ ا نھوں نے انتقام اور دشمنی کی سیاست کو خیر باد کہہ کر باہمی یگانگت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے کی کاوش کی ہے جس کی وجہ سے اس وقت پاکستانی جیلوں میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں ہے اور نہ ہی کسی پر جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور نہ ہی انھیں انتقامی سیاست کا نشانہ بنا یا گیا ہے جبکہ ما ضی میں انتقامی سیاست نے ملکی یک جہتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھااور قومی قائدین کو جلا وطنی پر مجبور ہو نا پڑاتھا۔ صدر آصف علی زرداری کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ وہ ساری سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور ملکی معاملات میں مشا ورت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

طارق حسین بٹ ( جنرل سیکرٹری پی پی پی یو اے ای) نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی پی پی پی کی قربانیوں کا صلہ ہے۔انھوں نے کہا کہ پی پی پی ایک ترقی پسند جماعت ہے جو پاکستان کے محروم طبقات کی نمائندہ جماعت ہے۔ عوامی شعور بیدار کرنے ،اپنے حقوق کا احساس دلانے اور عزتِ نفس کے اعلی و ارفع اصولوں کی علم برداری اس جماعت کی خصوصی پہچان ہے۔اس کے اسلامی سوشلزم اور مساوات کے سنہری اصولوں نے اسے عوامی مقبولیت کی ایسی مسند عطا کر رکھی ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے کوئی اس نے چھین نہیں سکا۔پی پی پی کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے لہذا اس جماعت کی مقبولیت سدا قائم رہے گی۔تقریب سے سردار جاوید یعقوب،ضیاء گورسی۔ بشیر بہادر ، ملک خادم شاہین۔ چوہدری شکیل احمد،ڈاکٹر ثمینہ چوہدری اور قونصل جنرل طارق اقبا ل سومرو نے بھی خطاب کیا۔ پروگرام کے آخر میں میزبان میاں عامر حیات نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ حافظ جمیل قادر ی نے ذولفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جمہوریت کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں کیلئے خصوصی دعا مانگی۔

تقریب میں زاہدہ پروین (پریس کونسلر)ڈاکٹر ریاض لانگ (ویلفئر کونسلر) رائو محمد طاہر، پر نس اقبال،شیخ واحد حسن ، ڈاکٹر ا مجد حمید انجم،رضوان عبد اللہ ، شفیق صدیقی ،چوہدری ناصر۔ محمد یوسف بٹ،ملک عمران۔ رئیس قریشی۔ چوہدری اظہر، سردار تبریز،فرحان نقشبندی،ملک سجاد اعوان،یوسف خان درانی،امیر حسین، ملک محمد اسلم،چوہدری خالد حسین،افتخار محمد، سعید احمد، رفیق ناصر، میجر (ر) پرویز علی خان،مفتی ابراہیم کے علاوہ کمیونیٹی کی کثیر تعداد نے اس تقریب میں شرکت کر کے پاکستان سے آئے ہو ئے اپنے مہمانوں کی عزت افزائی کی۔ تحریر : طارق حسین بٹ