وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا

وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں کبھی

تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے گھرے ہم بھنور میں کچھ اسطرح کھلے بادباں کو ترس گئے مرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بجھا دیا چلی ایسی

پیار کے دن اب بیت گئے ہیں ہم ہارے وہ جیت گئے ہیں سارے موسم ایک ہوئے ہیں چھوڑ کے جب سے میت گئے ہیں لے اور سُر کی بات کریں کیا! سنگ ان کے سب

وہ جو بکھرے بکھرے تھے قافلے وہ جو دربدر کے تھے فاصلے انہی قافلوں کے غبار میں انہیں فاصلوں کے خمار میں کئی جلتے بجھے چراغ تھے نئے زخم تھے نئے داغ تھے نہ شبوں میں

ہم کو تنہا چھوڑ گیا وہ جانے رخ کیوں موڑ گیا وہ اک ذرا سی بات کی خاطر سارے رشتے توڑ گیا وہ وصل کی شب وہ پیار جتا کر ہجر سے ناطہ جوڑ گیا وہ

ڈھل چکی شب چلو آرام کریں سو گئے سب چلو آرام کریں تم جو بچھڑے تھے ہرے ساون میں آ ملے اب چلو آرام کریں پھر گھٹائوں کے نظر آتے ہیں چپ ہوئے لب چلو آرام

روشن روشن آنکھیں اس کی ڈمپل والے گال چاند کی صورت کھلتا چہرہ ہرنی جیسی چال نرم و نازک پھول نگر کی تتلی تھی وہ شوخ جس کی حسرت سے تکتی تھی میرے دل کی ڈال