وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں کبھی
وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں کبھی
یہ قسمت کے دھارے سدا ایک سے ہیں سمندر کنارے سدا ایک سے ہیں مرے دل کے اک اک ورق پر لکھا ہے یہ تیور تمہارے سدا ایک سے ہیں مقدر میں دونوں کے ہیں ہجر
ٹھرہے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے تیری مٹی سے مرا
تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے گھرے ہم بھنور میں کچھ اسطرح کھلے بادباں کو ترس گئے مرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بجھا دیا چلی ایسی
رونا بھی جو چاہیں تو وہ رونے نہیں دیتا وہ شخص تو پلکیں بھی بھگونے نہیں دیتا وہ روز رُلاتا ہے ہمیں خواب میں آ کر سونا بھی جو چاہیں تو وہ سونے نہیں دیتا یہ
پھر نئے خواب بُنیں پھر نئی رنگت چاہیں زندہ رہنے کے لیے پھر کوئی صورت چاہیں نئے موسم میں کریں پھر سے کوئی عہدِ وفا عشق کرنے کے لیے اور بھی شدت چاہیں اک وہ ہیں
پیار کے دن اب بیت گئے ہیں ہم ہارے وہ جیت گئے ہیں سارے موسم ایک ہوئے ہیں چھوڑ کے جب سے میت گئے ہیں لے اور سُر کی بات کریں کیا! سنگ ان کے سب
پیار کرنے والوں کا بس یہی فسانہ ہے اک دیا تو روشن ہے اک دیا جلانا ہے ان کو بھول جائیں ہم دیکھ بھی نہ پائیں ہم یہ بھی کیسے ممکن ہے ایسا کس نے مانا
کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ ایک مدت سے دل اداس نہیں جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں میں
وہ جو بکھرے بکھرے تھے قافلے وہ جو دربدر کے تھے فاصلے انہی قافلوں کے غبار میں انہیں فاصلوں کے خمار میں کئی جلتے بجھے چراغ تھے نئے زخم تھے نئے داغ تھے نہ شبوں میں
خشک ڈالی سے گھنے پیڑ پہ ہجرت کرنا یاد آتا ہے پرندوں کا مسافت کرنا سبز موسم کے لیے دھوپ میں تپنا صدیوں اور خالق کا وہاں سائیہ رحمت کرنا اپنی دھرتی سے سدا ایسے تعلق
کھلنے لگے ہیں پھول اور پتے ہرے ہوئے لگتے ہیں پیڑ سارے کے سارے بھرے ہوئے سورج نے آنکھ کھول کے دیکھا زمین کو سائے اندھیری رات کے جھٹ سے پرے ہوئے آزادی وطن کا یہ
جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتا ملنے کو تو ملتے ہیں بہت لوگ جہاں میں پر ان میں کوئی بھی تیرے جیسا نہیں ہوتا دولت سے کبھی
کلی دل کی اچانک کھل گئی ہے کوئی کھوئی ہوئی شے مل گئی ہے یہ کس انداز سے دیکھا ہے تو نے زمیں پائوں تلے سے ہل گئی ہے میں اس کی ہر ادا پر مر
ہم کو تنہا چھوڑ گیا وہ جانے رخ کیوں موڑ گیا وہ اک ذرا سی بات کی خاطر سارے رشتے توڑ گیا وہ وصل کی شب وہ پیار جتا کر ہجر سے ناطہ جوڑ گیا وہ
ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے ! وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک
دیکھی ہیں جب سے ہم نے نزریں اتاریاں ہیں سارے جہاں سے اچھی آنکھیں تمہاریاں ہیں گل رنگ مہ وشوں پہ آتا ہے رشک ہم کو یہ صورتیں الہٰی کسی نے سنواریاں ہیں اک بار تو
ڈھل چکی شب چلو آرام کریں سو گئے سب چلو آرام کریں تم جو بچھڑے تھے ہرے ساون میں آ ملے اب چلو آرام کریں پھر گھٹائوں کے نظر آتے ہیں چپ ہوئے لب چلو آرام
وہ جو ہم کو بھلائے بیٹھے ہیں دل انہیں سے لگائے بیٹھے اک نہ اک شب تو لوٹ آئیں گے لو دیے کی بڑھائے بیٹھے ہیں آج بھی ان پہ جاں چھڑکتے ہیں وہ
ایسے ہوئے برباد تیرے شہر میں آ کر کچھ بھی نہ رہا یاد تیرے شہر میں آکر کیا دن تھے چہکتے ہوئے اڑتے تھے پرندے اب کون ہے آزاد تیرے شہر میں آکر یہ دن ہیں
روشن روشن آنکھیں اس کی ڈمپل والے گال چاند کی صورت کھلتا چہرہ ہرنی جیسی چال نرم و نازک پھول نگر کی تتلی تھی وہ شوخ جس کی حسرت سے تکتی تھی میرے دل کی ڈال
آپ کہتے ہیں بے وفا ہیں ہم ہاں مگر آپ سے تو ہیں کم کم اک نہ اک دن وہ لوٹ آئیں گے صبر کر صبر کر مرے ہمدم میرے گیتوں میں کون بولے ہے کس
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr