وہ بظاہر جو زمانے سے خفا لگتا ہے
اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں
نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے
متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے
معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا
میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا
کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا
خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی
کاش ہم کھل کے زندگی کرتے
کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا
وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں رہے گا
ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے
ہر نفس رنج کا اشارہ ہے
اتنی مدت بعد ملے ہو!
گُم صُم ہوا، آواز کا دریا تھا جو اک شخص
فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے
چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں
Page 1 of 212