معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے جاں بھی گرو غیر ،
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے جاں بھی گرو غیر ،
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر بھی،
فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے کہتا تھا
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے محمل میں خامشی
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں
ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار
لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی
شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ برگ گل آئینہ عارض زبیائے بہار شاہد مے کے لیے حجلہ جام آئینہ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انساں کو
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا اور اسیر حلقہ دام ہوا کیونکر ہوا جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا کچھ دکھانے
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا
تھا تخیل جو ہم سفر میرا آسماں پر ہوا گزر میرا اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی جاننے والا چرخ پر میرا تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے راز سر بستہ تھا سفر میرا حلقہ
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند سب فلسفی ہیں خطہ ٔمغرب کے رام ہند یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند اس دیس میں
میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز
اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟ میں مضطرب زمیں
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا دنیا کے بت کدوں میں پہلا
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی ابھی نا آشنائے لب
آئے جو قراں میں دو ستارے کہنے لگا ایک ، دوسرے سے یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب انجام خرام ہو تو کیا خوب تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو ہم دونوں کی ایک ہی
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار صبح یعنی دختر دوشیزہ لیل و نہار پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار آسماں نے آمد خورشید کی
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے تجھے وہ شاخ
گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی ہے الم کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی ایک بھی پتی اگر کم
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr