ماضی

یہ کہنہ محل، جس کے رنگیں دریچوں سے لپٹی ہوئی عشق پیچاں کی بیلیں منڈیروں، ستونوں پہ پھیلی ہوئی سبز کائی سرِ شام چلتے ہوئے سرد جھونکوں میں سسکاریاں بھر رہی ہے جہاں اب ہوا، اس

مرا دل محبت کا بھوکا بلند، اونچے پیڑوں کے جنگل میں چلتے ہوئے رہووں سے یہ کہتا ہوں مجھ کو اٹھا لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ ان المناک رستوں میں لیکر چلو جن میں ہر آرزو

تیغ لہو میں ڈوبی تھی اور پیڑ خوشی سے جھوما تھا بادِ بہار چلی جھوم کے جب اس نے مجھے دیکھا تھا گھائل نظریں اس دشمن کی ایسے مجھ کو تکتی تھیں جیسے انہونی کوئی دیکھی

اجنبی شکلوں سے جیسے کچھ شناسائی بھی تھی چاند نکلا ہوا تھا، کچھ گھٹا چھائی بھی تھی ایک عورت پاس آ کر مجھ کو یوں تکنے لگی جیسے میری آنکھ میں کوئی دیکھنے کی چیز تھی

مر بھی جائوں تو مت رونا اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا تیری میری چاہ کا بندھن موت سے بھی نہ ٹوٹے گا میں بادل کا بھیس بدل کر تجھ سے ملنے آئوں گا تیرے گھر کی

کب تک چلتا رہے گا راہی ان انجانی راہوں میں کب تک شمع جلے گی غم کی ان بے چین نگاہوں میں وہ بھی بھول گیا ہو گا تجھے دنیا کے جنجالوں میں کتنا بدل گیا

جس نے مرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں اک رات کسی برکھا رت کی کبھی دل سے ہمارے مٹ نہ سکی بادل میں جو چاہ کا پھول کھلا وہ دھوپ

کسی مکاں میں کوئی مکیں ہے جو سرخ پھولوں سے بھی حسیں ہے وہ جس کی ہر بات دل نشیں ہے کبھی کوئی اس مکاں میں جائے اور اس حسینہ کو دیکھ پائے تو دل میں

جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں شام آتے

شاموں کی بڑھتی تیرگی میں برکھا کے سونے جنگل میں کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں رنگوں کی بہتی نہروں میں ان اونچی اونچی کھڑکیوں والے اُجڑے اُجڑے شہروں میں کن جانے

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھکو کھو دیا، میں نے تجھکو کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر

کبھی چور آنکھوں سے دیکھ لیا کبھی بے دھیانی کا زہر دیا کبھی ہونٹوں سے سرگوشی کی کبھی چال چلی خاموشی کی جب جانے لگے تو روک لیا جب

اپنے گھر کو واپس جائو، رو رو کر سمجھاتا ہے جہاں بھی جائوں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے اس کو بھی تو جا کر دیکھو، اس کا حال بھی مجھ سا ہے چپ چپ رہ