ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر
ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں مرے فلک کے وہ چاند تارے اجڑ چکے ہیں جو
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے قافلوں کو منزلوں کی
راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے تیرے کوچے کا منظر ہچکتا رہا تیری تنہائیاں بھی بلاتی رہیں تیرے شہرِ وفا سے نکل ہی گیا میں اندھیرے کے ٹھنڈے سفر کی طرح اب تمازت سے احساس جلنے
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم میں تیرے درد کی تفسیر کس طرح لکھوں میں تیرے شہر کو زندان یا قفس لکھوں تری خاموشیوں کو درد یا گھٹن لکھوں یہ شہر جس کی پناہوں میں
دور اک گائوں میں چاند کی چھائوں میں سبز کھیتوں کے دامن میں دو دل ملے عہد و پیماں ہوئے اور گجرے بندھے چاند چمکتا رہا مسکراتا رہا پھر چلی ایک آندھی بڑے زور کی اور
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے دیوار و در کے ساتھ دیچے بھی ہیں مگر ہر شخص تیرے شہر کا بے گھر لگے مجھے پھینکے جو تو
اس سے پہلے کہ آنسو مقدر بنیں اس سے پہلے کہ کوئی ستم توڑ دے آ اسی موڑ پہ مسکراتے ہوئے میں تجھے چھوڑ دوں تو مجھے چھوڑ دے اس سے پہلے کہ ویران ہو زندگی
دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ الزام بھی ملے گا تمہیں دوستی کے ساتھ پہرے لگا کے عشق پہ رختِ سفر دیا تھا یہ بھی اک مذاق مری رہروی کے ساتھ واعظ کو
ذرا سی دیر کو تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں کہ جس کی ایک شاخ پہ کھلا تھا گل بہار کا اور اس میں رنگ تھے کئی تری نظر کو بھا گیا
محبتوں کے نصاب جیسا وہ ایک چہرہ کتاب جیسا مہکتا ہے میرے قلب و جاں میں وہ شخص کھلتے گلاب جیسا یقیں بھی ہے وہ میرے دل کا گُمان بھی ہے سراب جیسا میں سوچوں اس
کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں کس لیے احساس کی حد سے گزر جاتا ہوں میں ڈوب جائے گی تو اپنے آنسوئوں میں سوچ لے چھوڑ کے اے زندگی تجھ کو اگر
آج روئے ہیں تنہا بڑی دیر تک کل ان آنکھوں میں پانی رہے نہ رہے کیا خبر آپ لوٹیں تو میں نہ رہوں میرے غم کی کہانی رہے نہ رہے وقت تو ایک رت ہے بدل
وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے کیسے میرا کٹا پھر سفر یاد ہے خشک ہونٹوں پہ زخمی تبسم لیے بھیگی بھیگی سی تیری نظر یاد ہے چھوڑ آئے تھے مجبور ہو کر جسے تیری بستی
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کےجو مر جاتے تو اچھا تھا ہم اپنے پیار میں حد سے گزر جاتے تو اچھا تھا بچھڑنے سے ذرا پہلے بہک جاتا جنوں میرا مرے پہلو میں وہ گیسو بکھر
تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے ہم کہانی پیار کی جو عمر بھر لکھتے رہے اپنے کاندھے پہ رکھے اغیار کی فکر و نظر زندگی کی بھول کو اپنا سفر لکھتے رہے بے
اس کو بانہوں میں چھپا کر پیار کی باتیں کروں بند ہونٹوں پہ سجے اقرار کی باتیں کروں جس کی آنکھ میں ستارے اور ہونٹوں پہ گلاب وہ مجھے محبوب ہے اس یار کی باتیں کروں
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr