ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے

ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر

راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے تیرے کوچے کا منظر ہچکتا رہا تیری تنہائیاں بھی بلاتی رہیں تیرے شہرِ وفا سے نکل ہی گیا میں اندھیرے کے ٹھنڈے سفر کی طرح اب تمازت سے احساس جلنے

مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم میں تیرے درد کی تفسیر کس طرح لکھوں میں تیرے شہر کو زندان یا قفس لکھوں تری خاموشیوں کو درد یا گھٹن لکھوں یہ شہر جس کی پناہوں میں

دور اک گائوں میں چاند کی چھائوں میں سبز کھیتوں کے دامن میں دو دل ملے عہد و پیماں ہوئے اور گجرے بندھے چاند چمکتا رہا مسکراتا رہا پھر چلی ایک آندھی بڑے زور کی اور

اس سے پہلے کہ آنسو مقدر بنیں اس سے پہلے کہ کوئی ستم توڑ دے آ اسی موڑ پہ مسکراتے ہوئے میں تجھے چھوڑ دوں تو مجھے چھوڑ دے اس سے پہلے کہ ویران ہو زندگی

ذرا سی دیر کو تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں کہ جس کی ایک شاخ پہ کھلا تھا گل بہار کا اور اس میں رنگ تھے کئی تری نظر کو بھا گیا

محبتوں کے نصاب جیسا وہ ایک چہرہ کتاب جیسا مہکتا ہے میرے قلب و جاں میں وہ شخص کھلتے گلاب جیسا یقیں بھی ہے وہ میرے دل کا گُمان بھی ہے سراب جیسا میں سوچوں اس

وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے کیسے میرا کٹا پھر سفر یاد ہے خشک ہونٹوں پہ زخمی تبسم لیے بھیگی بھیگی سی تیری نظر یاد ہے چھوڑ آئے تھے مجبور ہو کر جسے تیری بستی