مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ مجھ سےپہلی سے محبت مری محبوب نہ مانگ میں نے سمجھاتھا کہ توہے تو درخشاںہےحیات تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے تیری صورت

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آ جائے جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے دل رہینِ غمِ

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے جس کی اُلفت میں بھلا رکھی تھی دُنیا ہم نے دہر کو دہر کا افسانہ بنا

مری جاں اب بھی اپناحسن واپس پھیردےمجھکو ابھیتک دل میںتیرےعشق کی قندیل روشن ہے ترے جلووں سے بزمِ زندگی جنت بدامن ہے مری روح اب بھی تنہائی میںتجھکویادکرتی ہے ہر اک تارِ نفس میں آرزو بیدار

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام دھل کےنکلےگی ابھی چشمئہ مہتاب سےرات اور مشتاق نگاہوں کی سُنی جائے گی ان ہاتھوں سے مس ہونگے یہ ترسے ہوئےرات انکا آنچل ہے، کہ رُخسار، کہ پیراہن

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ سو گئی راستہ رک تک کے

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو

وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے جب درد سے رُک جائیں گی سب زیست کی راہیں اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں چھن جائیں گے

کچھ دن سے انتظارِ سوالِ دگر میں ہے وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے ماضی میں جو مزا

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے تری مسرت پیہم تمام ہو جائے تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے غموں سے آئینئہ دل گداز ہو

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا مگر یہ چشمِ حیراں، جس

کیوں میرا دل شاد نہیں ہے کیوں خاموش رہا کرتا ہوں چھوڑو میری رام کہانی میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں میرا دل غمگیں ہے تو کیا غمگیں یہ دنیا ہے ساری یہ دُکھ تیرا ہے

موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا ناخدا دور، ہوا تیز، قریں کام نہنگ وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا عرصئہ دہر کے ہنگامے تہِ خواب

عشق محنت کشِ قرار نہیں حسن مجبورِ انتظار نہیں تیری رنجش کی انتہا معلوم حسرتوں کا مری شمار نہیں اپنی نظریں بکھیر دے ساقی مَے باندازئہ خمار نہیں زیرِ لب ہے ابھی تبسمِ دوست منتشر جلوئہ

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں ریاضِ زیست ہے آزرسدئہ بہار ابھی مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں ہو خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو بہار نے جس خونِ جگر سے پالا ہو

دل کے ایواں میں لئے گل شدہ شمعوں کے قطار نورِ خورشید سے سہمے ہوئے اُکتائے ہوئے حسنِ محبوب کے سیال تصور کی طرح اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے غایت سود و زیاں، صورت

حسینئہ خیال سے! مجھے دے دے رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جائوں! مری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے ہمیشہ کے لیے اس

ہمت التجا نہیں باقی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی اِک تری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ میں نہیں یا وفا نہیں باقی تیری

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے بول، زباں اب تک تیری ہے تیرا ستواں جسم ہے تیرا بول، کہ جاں اب تک تیری ہے دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں تند ہیں شعلے، سرخ ہے

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز ظلم کی چھائوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں